واشنگٹن۔امریکی کانگریس کے ٹام لینٹوس ہیومن رائٹس کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں “سیاسی مخالفین پر جاری دباؤ” کا جائزہ لینے کے لیے سماعت کرے گا۔ یہ اعلان کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔
یہ سماعت، جو بالمشافہ منعقد کی جائے گی اور آن لائن بھی نشر ہوگی، پاکستانی حکومت کے ان اقدامات پر توجہ مرکوز کرے گی جو مبینہ طور پر سیاسی آزادیوں کو محدود کرتے ہیں۔ ان میں سیاسی مخالفین کے ساتھ سلوک، آزاد صحافت کا گلا گھونٹنے، اور میڈیا و مواصلاتی ذرائع پر کنٹرول شامل ہیں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ وہ ان اقدامات کے پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق پر اثرات کا جائزہ لے گا۔ کمیشن کا مقصد عالمی انسانی حقوق کا فروغ، دفاع اور حمایت کرنا ہے جیسا کہ عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق اور دیگر کلیدی انسانی حقوق کے فریم ورکس میں درج ہے۔
اعلان کے مطابق، بہت سے مبصرین پاکستان میں موجودہ دباؤ کی صورتحال کو 2022 سے جوڑتے ہیں، جب اُس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا، بعد میں کرپشن کے مقدمے میں سزا سنائی گئی، اور جیل میں ڈال دیا گیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی 2023 کی رپورٹ برائے انسانی حقوق میں پاکستان میں کئی اہم خدشات کو اجاگر کیا گیا ہے، جن میں جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، مذہبی و نسلی اقلیتوں پر ظلم و ستم، اور سرحد پار دباؤ ڈالنے جیسے مسائل شامل ہیں۔
کمیشن نے یہ بھی نوٹ کیا کہ فروری 2024 میں پاکستان کے عام انتخابات کے دوران اظہار رائے، اجتماع، اور پرامن احتجاج کی آزادیوں پر “غیر ضروری پابندیاں” عائد کی گئیں۔ اس کے علاوہ انتخابی تشدد اور بنیادی حقوق میں مداخلت کے واقعات بھی پیش آئے، جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا۔
سماعت میں گواہی دینے والوں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بین لنڈن، انسانی حقوق کے وکیل جیرڈ گینسر، افغانستان امپیکٹ نیٹ ورک کے صادق امینی، اور عمران خان کے مشیر زلفی بخاری شامل ہوں گے۔











