واشنگٹن۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی عالمی سطح پر سفارتی کامیابیوں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے قریبی تعلقات کے دعوے ایک بار پھر حقیقت کے برخلاف ثابت ہوئے، جب ٹرمپ نے بھارت پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کے ساتھ تجارتی تعلقات پر تحفظات کا اظہار کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بھارت امریکا کا دوست ہے، لیکن دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم کم رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ بھارت کی انتہائی بلند ٹیرف شرحیں اور سخت غیر مالیاتی تجارتی رکاوٹیں ہیں، جو امریکا کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان وجوہات کی بنا پر امریکا کا بھارت کے ساتھ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ٹرمپ نے بھارت کے عسکری و دفاعی تعلقات پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے ہمیشہ اپنی زیادہ تر فوجی ضروریات روس سے پوری کی ہیں، اور حالیہ برسوں میں وہ چین کے ساتھ مل کر روس سے توانائی کا بڑا خریدار بھی بن چکا ہے۔
ان کے مطابق، بھارت ایسے وقت میں روس کے ساتھ تجارت کر رہا ہے جب دنیا چاہتی ہے کہ یوکرین میں روس کی جارحیت کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے کہا، ’’یہ سب کچھ کسی طور پر درست یا قابلِ قبول نہیں ہے۔‘‘
سخت تجارتی اقدامات کا عندیہ
سابق امریکی صدر نے یہ بھی اعلان کیا کہ بھارت کو 25 فیصد اضافی ٹیرف ادا کرنا ہوگا، اور روس سے تجارتی روابط کی بنیاد پر مزید مالی پابندیاں یا جرمانے بھی عائد کیے جا سکتے ہیں، جن کا اطلاق یکم اگست سے متوقع ہے۔
ان کے بقول، ان اقدامات کا مقصد امریکا کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ کم کرنا ہے، خاص طور پر اُن ممالک کے ساتھ جن سے امریکا بھاری مقدار میں اشیاء درآمد کرتا ہے۔
سفارتی تعلقات پر ممکنہ اثرات
اگرچہ یہ اعلان فی الحال ٹرمپ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک محدود ہے، لیکن وائٹ ہاؤس نے تاحال کوئی سرکاری ردِعمل یا وضاحت جاری نہیں کی۔ تاہم، مبصرین کے مطابق، یہ موقف امریکا کی ممکنہ آئندہ تجارتی پالیسی کا اشارہ ہو سکتا ہے اور بھارت-امریکا تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کر سکتا ہے۔
یہ صورتِ حال بھارتی حکومت کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے، خصوصاً اس وقت جب بھارت خود کو عالمی طاقتوں کے قریب ترین شراکت دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔











