پاک سعودی دفاعی معاہدے میں مشرق وسطیٰ کی سلامتی کیلیے ایٹمی تحفظ شامل

اسلام آباد/ریاض: پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے حالیہ دفاعی معاہدے نے مشرق وسطیٰ کی سلامتی میں نئی جہت پیدا کر دی ہے جس میں مبصرین کے مطابق ’’ایٹمی تحفظ‘‘ کا پہلو بھی جھلکتا ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب خطے کے کئی عرب ممالک اسرائیل سے بڑھتے خطرات محسوس کر رہے ہیں۔

بدھ کو طے پانے والے ’’اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے‘‘ کے تحت تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی معاشی طاقت اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں سے لیس فوجی قوت ایک دوسرے کے قریب آگئی ہے۔ اگرچہ معاہدے کی تفصیلات تاحال محدود ہیں تاہم اس پر خطے میں گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔

پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ معاہدے میں ایٹمی ہتھیار شامل نہیں تاہم اس کا دائرہ خلیج کے دیگر ممالک تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق یہ معاہدہ جارحیت کے لیے نہیں بلکہ فریقین کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں فعال ہوگا۔ دوسری جانب سعودی حکام کے بیانات میں ایٹمی پہلو پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے جس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ ریاض اس معاہدے کے ذریعے ایک طرح کا ’’ایٹمی ڈھال‘‘ حاصل کر رہا ہے۔

خلیجی ممالک کے مطابق اسرائیل جو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا قطر پر حالیہ حملوں کے بعد براہ راست خطرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ سعودی عرب کا مؤقف ہے کہ اگر ایران نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تو وہ بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہے گا۔

ایک سینئر سعودی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ’’یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو ہر قسم کی فوجی صلاحیتوں کو اپنے دائرے میں لاتا ہے۔‘‘ ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ خطے میں امریکا کی فراہم کردہ سلامتی پر اعتماد کمزور پڑ رہا ہے۔

سعودی حکومت کے بقول یہ معاہدہ ’’دفاعی تعاون کے مختلف پہلوؤں کو فروغ دینے اور مشترکہ دفاع کو مضبوط بنانے‘‘ کے لیے ہے تاہم انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا اس میں پاکستان کے ایٹمی ہتھیار شامل ہیں یا نہیں۔ اس پیش رفت پر واشنگٹن اور اسرائیل کی جانب سے فوری ردعمل سامنے نہیں آیا جبکہ بھارت اور ایران میں اس حوالے سے تشویش بڑھنے کا امکان ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں