اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری غزہ جنگ میں ایک غیر متوقع پیش رفت سامنے آئی ہے جس نے خطے میں ممکنہ امن کی امیدوں کو تقویت دی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کے مطابق حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک خط تحریر کیا ہے جس میں 60 روزہ جنگ بندی کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کے نصف حصے کی رہائی کی پیشکش کی گئی ہے۔
فاکس نیوز نے اس خبر کی تصدیق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار اور براہِ راست مذاکرات سے جڑے ایک ذریعے کے حوالے سے کی۔ بعدازاں اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے بھی آزاد ذرائع سے اس رپورٹ کو درست قرار دیا۔
ذرائع کے مطابق یہ خط اس وقت قطر کے پاس ہے اور امکان ہے کہ رواں ہفتے کے آخر تک صدر ٹرمپ کو پیش کیا جائے گا۔ تاہم یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ حماس نے ابھی تک اس پر باضابطہ دستخط نہیں کیے لیکن آئندہ چند دنوں میں ایسا ہونے کا قوی امکان ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قطر، جو یرغمالیوں کی رہائی میں ثالثی کر رہا تھا، اسرائیل کی جانب سے دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ثالثی کی کوششیں معطل کر چکا ہے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تھا اور 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا تھا۔ موجودہ اطلاعات کے مطابق حماس کی تحویل میں اب بھی 48 اسرائیلی یرغمال ہیں، لیکن اندازہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے تقریباً نصف ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وقت مذاکرات کا مقصد باقی 20 زندہ یرغمالیوں اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی لاشوں کی واپسی ہے۔
اقوام متحدہ کا اجلاس اور عالمی ردعمل
دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے نام یہ خط اس وقت سامنے آیا ہے جب اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں فرانس اور سعودی عرب کی میزبانی میں ایک اہم اجلاس جاری ہے۔ اجلاس میں کم از کم چھ مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان متوقع ہے اور اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد بھی پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
تاہم امریکا اور اسرائیل نے اپنی روایتی ضد اور سخت رویے کے باعث جنرل اسمبلی کے اس تاریخی اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔











