سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ افریدی کو ایک تفصیلی خط لکھا ہے جس میں عدلیہ کو درپیش خطرات پر غور کے لیے کانفرنس بلانے کی سفارش کی گئی ہے۔ خط میں انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کو بعض اوقات عوامی رائے دبانے کے لیے ’غیر منتخب اشرافیہ‘ کے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے بل کی منظوری کے لیے سرگرم ہے، جس میں عدلیہ اور فوجی قیادت سے متعلق متعدد اہم ترامیم شامل ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے سات صفحات پر مشتمل خط میں لکھا کہ وہ یہ پیغام آئین کے احترام اور قومی ذمہ داری کے تحت لکھ رہے ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے یہ ریکارڈ پر رہے کہ کس طرح عوام کی تقدیر عدالت عظمیٰ کی دیواروں کے پیچھے طے کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات نے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بری طرح متزلزل کیا ہے۔ ان کے مطابق ادارے ایک دن میں قائم نہیں ہوتے لیکن خوف، کمزوری یا طاقت کے سامنے جھکنے سے تیزی سے تباہ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ عدلیہ کی تاریخ بے داغ نہیں رہی، تاہم ماضی کی غلطیاں اس بات کا جواز نہیں بن سکتیں کہ عدلیہ کو غیر منتخب اشرافیہ کے مفادات کے تابع رکھا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدلیہ پر عوامی اعتماد کو لاحق خطرات کے بارے میں آواز بلند کریں۔ ان کے مطابق اگرچہ انہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، لیکن وہ خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں کیونکہ عوام کے بنیادی حقوق اکثر نعروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کی تاریخ میں اشرافیہ اور بعض اداروں کے درمیان ایک غیر اخلاقی اتحاد موجود رہا ہے، جس کی بنیاد طاقت، مراعات اور کنٹرول پر قائم ہے۔ ان کے بقول، یہ وقت ہے کہ عدلیہ اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے واضح موقف اپنائے تاکہ عوامی اعتماد بحال کیا جا سکے۔











