وزارت خزانہ کی اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ میں درجن کے قریب ترامیم کی تجویز، وزارت قانون جائزہ لے چکی، سمری وفاقی کابینہ کو ارسال۔
وفاقی کابینہ کی طرف سے منظوری کی صورت میں یہ حکومتی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی بن کر سامنے آئے گی۔
وفاقی حکومت کی طرف سے دہری شہریت کے حامل افراد کو مرکزی بینک کا گورنر، ڈپٹی گورنر لگانے اور ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترامیم میں دہری شہریت کے حامل افراد کو بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز اور بورڈ کے نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹرز لگانے کی اجازت دینا بھی شامل ہے، اس کیلئے حکومت نے ایس بی پی ایکٹ کے گورنر، ڈپٹی گورنرز، ڈائریکٹر اور ممبرز کی نااہلی سے متعلق سیکشن 13میں ترمیم کرکے لفظ دہری شہریت کو خارج کرنے کی تجویز دیدی ہے جس کے تحت دہری شہریت کے حامل افراد ان عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتے۔
ذرائع کے مطابق بینک کے دہری شہریت کے حامل ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین کی مدت ملازمت 8نومبر کو ختم ہونے جا رہی ہے، تقرری کے وقت دہری شہریت کی پابندی نہیں تھی، حکومت قابلیت اور تجربے کی وجہ سے انہیں پانچ سال کی توسیع دینے کی خواہاں ہے۔ دہری شہریت کے حامل دوسرے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر سعید احمد ہیں جو کہ اس سے پہلے آئی ایم ایف کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔
مجوزہ ترمیمی بل میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل کرنسی کا تصور بھی متعارف کرایا گیا ہے، قبل ازیں سٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی کا مطالبہ مسترد اور اس کے استعمال کے خلاف متعدد بار انتباہ بھی جاری کر چکا ہے۔ مجوزہ ترمیمی بل میںڈیجیٹل کرنسی کی نئی تعریف شامل کی جا رہی ہے، جس کے مطابق سکیشن 24 کے تحت بینک کی جاری کردہ ڈیجیٹل شکل میں کرنسی سیکشن25 کے تحت قانونی ٹینڈر رقم تصور ہو گی۔
انہی سکیشنز کے تحت ہی بینک کی طرف سے جاری کرنسی نوٹ قانونی ٹینڈر رقم کہلاتے ہیں۔مجوزہ ترمیمی بل کے تحت ڈیجیٹل ادائیگیوں کا نظام چلانے کیلئے ایک نیا ذیلی ادارہ قائم کیا جائے گا۔