ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل

ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کیخلاف توہین عدالت کیس، انٹرا کورٹ اپیل پر 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا

اسلام آباد: ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کیخلاف توہین عدالت کیس، انٹرا کورٹ اپیل پر 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا
سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرارجوڈیشل نذرعباس نے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس چیلنج کردیا۔ توہین عدالت کی کارروائی پرحکم امتناع کی درخواست دائرکردی۔
سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل پرچھ رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذرعباس نے توہین عدالت کا شوکاز نوٹس چیلنج کردیا، ایڈیشنل رجسٹرارجوڈیشل نذرعباس نے توہین عدالت کی کارروائی پر حکم امتناع کی درخواست بھی کردی۔
سپریم کورٹ نے نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل پر 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا گیا ہے، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی بھی تشکیل پانے والے بینچ کا حصہ ہیں۔ 6 رکنی لارجر بینچ 27 جنوری دن ایک بجے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے بینچز اختیارات کے معاملے پر ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت کی.
اس دوران انہوں نےریمارکس دیے ہیں کہ بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا،
ہمارے پاس ججز کمیٹی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا اختیار ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ معاملہ فل کورٹ کو بھیجا جائے۔
سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کے معاملے پر ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے کی۔
عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ عدالتی معاونین حامد خان، احسن بھون اور خواجہ حارث کے علاوہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے آج عدالت میں شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا، جس میں انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی۔
انہوں نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا بھی کی۔ذرائع نے بتایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملہ پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوایا تھا۔
آج سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور علی خان نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں ہوسکتا،
سپریم کورٹ کی تشکیل آرٹیکل 175 کے تحت ہوئی ہے، جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے،
سپریم کورٹ کی تعریف بھی واضح ہے، اس میں تمام ججز شامل ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں مخصوص جج ہی سپریم کورٹ کی پاور استعمال کرسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں