اسلام آباد ہائی کورٹ پورے پاکستان کی ہے، ججوں کے تبادلے آئین کے تحت ہوئے، چیف جسٹس
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کسی ایک خاص کی نہیں پورے پاکستان کی ہے، اسلام آباد وفاق کی علامت ہے۔ جج کے تبادلے آئین کے تحت ہوئے۔
پریس ایسوسی ایشن کی حلف برداری تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئے ججز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، اس اقدام کو اور ججز کو سراہنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر دونوں الگ معاملے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے ٹرانسفر کے معاملے کو مکس نہ کیا جائے، دوسرے صوبوں کے ججز کو بھی فیئر چانس ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ آنے والے ججز کو تعینات نہیں کیا گیا، یہ پہلے سے ہی ہائی کورٹ کے جج ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میں کیوں ججز ٹرانسفر پر راضی ہوا، ججز کی ٹرانسفر آئین کے تحت ہوئی، ایک بلوچی بولنے والا جج آیا اور سندھی بولنے والا جج آیا، وفاق پورے ملک کا ہے، آرٹیکل 200 کے تحت اچھا اقدام ہے، مزید ججز بھی دیگر صوبوں سے آنے چاہئیں۔
ججوں کے تبادلے
ان کا کہنا تھا کہ بطورچیف جسٹس پاکستان ویژن بڑا ہونا چاہیے، میں روزانہ30سے 40کیسز سن رہا ہوں، سپریم کورٹ میں زیرالتواکیسز کا بیک لاگ ختم کرناہے، ہمیں سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہے۔ ہر جج آزاد اور بااختیار ہے، سارا لوڈ تین چار ججز پر پڑ جاتا ہے، جو میرا دائرہ اختیار ہے بلاخوف وخطر استعمال کروں گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جو آئینی مینڈیٹ مجھے ملا اسے دیکھ کر ہی فیصلے کرتا ہوں، جہاں ذرا سا بھی لگاکہ میرا کوئی انٹرسٹ ہے اس معاملے سے فورا الگ ہو جاتا ہوں۔
ججز کے درمیان تحفظات سے متعلق سوال پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کوشش کر بھی رہا ہوں اور مزید بھی کروں گا، تمام ججز سے گپ شپ لگاؤں گا، میں چیف جسٹس پاکستان ہوں، ہائیکورٹ ججز کے پاس بھی گپ شپ لگانےجاؤں گا، وقت لگے گا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ دوسری ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ وکلا نے اس اقدام پر احتجاج کا اعلان کیا۔