اسلام آباد ۔سائنس دانوں کی ایک تازہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک ایسا وائرس جسے طویل عرصے سے بے ضرر سمجھا جاتا تھا، ممکنہ طور پر پارکنسنز (رعشے) جیسی سنگین بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔
اس تحقیق کی قیادت نارتھ ویسٹرن میڈیسن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر آئگر کورلِنک نے کی۔ ایک پریس ریلیز میں انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم ان ماحولیاتی عوامل، خاص طور پر وائرسز، کی چھان بین کر رہی تھی جو پارکنسنز جیسی بیماری کے پیچھے کارفرما ہو سکتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے ’وائرو فائنڈ‘ نامی ایک جدید ٹول استعمال کیا، جس کے ذریعے رعشے کے شکار مریضوں اور عام افراد کے دماغی بافتوں — جو ان کی وفات کے بعد حاصل کیے گئے — کا موازنہ کیا گیا۔ اس موازنے میں وہ تمام وائرسز شامل تھے جو اب تک انسانوں کو متاثر کرتے پائے گئے ہیں، تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان کوئی خاص فرق دریافت کیا جا سکے۔
تحقیق میں حیران کن طور پر پارکنسنز کے مریضوں میں سے نصف کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی میں “ہیومن پیگی وائرس” (HPgV) کی موجودگی پائی گئی۔ یہ وائرس ہیپاٹائٹس سی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور خون کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہو سکتا ہے۔
یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے JCI Insight میں شائع ہوئی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ مطالعہ پارکنسنز جیسی پیچیدہ بیماری کے مزید اسباب کو سمجھنے میں ایک بڑی پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے اس وائرس کے بارے میں بھی نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں، جسے ماضی میں انسانی صحت کے لیے بے ضرر تصور کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر آئگر کورلِنک کا کہنا تھا کہ HPgV ایک ایسا انفیکشن ہے جو عام طور پر کسی علامت کے بغیر رہتا ہے، اور اس سے پہلے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ وائرس طویل عرصے تک دماغی نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔











