اسلام آباد۔ نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے آج ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائندگی کی اور مختلف بین الاقوامی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے مسئلے فلسطین کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا۔ ان ملاقاتوں میں آسٹریلیا کویت عرب اور اسلامی ممالک کے نمائندے اور امریکا کے عہدیداران شامل تھے۔ انہوں نے غزہ میں جاری مظالم اور امداد کی فراہمی پر مفصل گفتگو کی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انڈونیشیا نے فلسطین میں امن فورس کے طور پر 20 ہزار فوجی بھیجنے کی پیشکش کی ہے اور حکومتی توقع ہے کہ پاکستان بھی اس ضمن میں کوئی مثبت فیصلہ کرے گا۔ اس منصوبے کے تحت امن فورس تعینات ہوگی اور امن بورڈ میں اکثریت فلسطینی نمائندوں کی ہوگی تاکہ خود مختاری اور امن کی عملداری ممکن بن سکے۔
اسحاق ڈار نے امریکی جانب سے جاری کیے گئے 21 نکاتی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ان میں ترامیم تجویز کیں اور وہ دستاویزات پوری طرح قبول نہیں کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہماری ترامیم شامل نہیں ہوں تو انہیں لازمی طور پر شامل کیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کے تحفظات کا خیال رکھا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی پالیسی شفاف اور مستقل ہے اور وزیراعظم نے اسی پالیسی کو جنرل اسمبلی میں دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ سارک ممالک بھی ہمارے اس موقف کے حامی ہیں۔ مشرف کی پالیسی پر اسحاق ڈار نے بحث سے اجتناب کیا اور کہا کہ وہ اس موضوع پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
مزید برآں انہوں نے بتایا کہ آٹھ ممالک نے واضح کیا ہے کہ ویسٹ بینک پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور فلسطینی رہنماؤں نے بھی ان امن معاہدوں کو سراہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے تنقید کرنے والوں کو مخاطب کر کے کہا کہ سیاست مقصود بنا کر ملک یا خطے میں خون ریزی کی اجازت دینا درست نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں اور خواتین کا خون بہتے رہنے کی خواہش رکھنے والوں کا مقصد صرف سیاست ہے اور انہیں اپنی سوچ بدلنی چاہیے۔
اسحاق ڈار نے زور دیا کہ پاکستان فلسطینیوں کے مکمل حقوق اور اسرائیل کے انخلا کے مطالبے کے ساتھ متحرک ہے اور بین الاقوامی سطح پر امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کی کوشش جاری رکھے گا۔











