ماہرین کے مطابق پانی کی شدید قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات نصف آبادی کو غذائی قلت سے دوچار کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی 90 فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے، اس حوالے سے مقامی اور غیر ملکی ماہرین نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے وارننگ جاری کر دی۔
ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2030 تک پانی کی شدید قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کی وجہ سے نصف آبادی غذائی قلت اور غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو جائے گی۔
ماہرین کی طرف سے یہ وارننگ انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ (آئی جی ایچ ڈی ) کے زیر اہتمام ‘پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی، زراعت، انسانی غذائیت اور ترقی’ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ سیمینار کے دوران سامنے آئی۔
سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ سلوشنز نیٹ ورک پاکستان (ایس ڈی ایس این) کے تعاون سے منعقد ہونے والے سیمینار میں موسمیاتی مسائل، خوراک کی حفاظت اور صحت عامہ کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ بات چیت کی گئی۔
آغا خان یونیورسٹی میں ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار بھٹہ سمیت دیگر ماہرین نے ان باہم مربوط چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جدید حل کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ پاکستان کی 90 فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر اس وقت خطرے سے دوچار ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ برف پگھلنے اور بارشوں کے بے ترتیب واقعات ہمیں آہستہ آہستہ خوراک کی غیر معمولی کمی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔