بون میرو ٹرانسپلانٹ

بون میرو ٹرانسپلانٹ غریب کی پہنچ سے باہر ہونے میں کتنی حقیقت ہے؟

کراچی سمیت سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں یہ سہولت میسر ہی نہیں ، بون میرو ٹرانسپلانٹ تھیلیمیسا اور خون کے کینسر کے مریضوں کو کیا جاتا ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق خون کے کینسر کی تشخیص اور علاج غریب مریضوں کیلئے تقریبا نامکمن ہے کیونکہ کراچی کے مختلف نجی اسپتالوں میں ماہانہ 5 ہزار مریض سندھ اور بلوچستان سے آتے ہیں اور ایک نجی اسپتال میں یہ علاج بہت مہنگا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ تھیلیمیسا اور خون کی کینسر (اے پلاسٹک انیمیا) کے مریضوں کو کیا جاتا ہے جبکہ دیگر خون کے کینسر کا علاج مختلف ادویات کے ذریعے ہوتا ہے۔ خون کے کینسر کی ادویات بھی بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے مریضوں کے لواحقین شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔

تھیلیسمیاکے مرض میں مبتلا ایک بچے کے والد کے مطابق میں نے سول، جناح اسپتال سمیت دیگر اسپتال میں اس علاج کے لیے رجوع کیا جس پر معلوم ہوا کہ یہ بہت مہنگا ہے اور کسی بھی سرکاری اسپتال میں نہیں ہوتا۔

ماہر امراض خون ڈاکٹرثاقب انصاری کے مطابق خون کی کینسر کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا مریضوں کی ادویات بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔

واضع رہے کہ کراچی میں تھیلیسمیا اورخون کے کینسر کے علاج کے لیے پہلا ٹرانسپلانٹ 1994 میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر شمسی مرحوم نے لیاری کے رہایشی اشرف کا کیا تھا۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں