پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا مستقبل

تحریر شاہد محمود
چند سال پہلے کی بات ہے جب پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ کے لئے سنٹرل داخلہ کا امتحان متعارف نہیں ہوا کرتا تھا تو مجھے اپنے کسی دوست کے بیٹے کے داخلہ کے لئے کچھ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں جانے کا اتفاق ہوا تو یقین جانئیے کہ ہر میڈیکل کالج میں منڈیاں لگی ہوئی تھیں اور داخلہ کے لئے لین دین اور ڈیلیں ہو رہی تھیں۔ ایک میڈیکل کالج میں تو حالت یہ تھی کہ فنانس مینیجر اور اکاؤنٹ افسر داخلہ کے معاملات کو دیکھ رہے تھے اور ہر سیٹ کے عوض پچاس لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے تک ڈونیشن کے نام پر رشوت وصول کررہے تھے اور پھر ایسا ہوا کہ سرکاری میڈیکل کالجوں سے پہلے ہی پرائیویٹ میڈیکل کالجوں نے داخلے کرکے اچھا خاصا مال بنالیتے تھے۔ پھر جب سنٹرل ٹیسٹ کا نظام آیا تو میرٹ بننے لگا لیکن تب ان کالجوں کی فیسوں میں بڑا اضافہ کردیا گیا اور جہاں میڈیکل کالج کی سالانہ فیس سات سے آٹھ لاکھ روپے ہوا کرتی تھی وہ اب بڑھ کر سترہ سے بیس لاکھ روپے سالانہ ہو چکی ہے جبکہ صرف پنجاب میں درجنوں کے حساب سے نئے میڈیکل کالج وجود میں آ چکے ہیں اور ڈاکٹر بنانے کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا جبکہ دوسری طرف حکومت نے ڈاکٹروں کی بھرتیوں پر سالہا سال سے پابندی لگا رکھی ہے جس سے ہوا یہ کہ سرکاری ہسپتالوں میں کنٹریکٹ پر ڈاکٹر بھرتی ہونے لگے اور جوسنئر ڈاکٹر سرکاری ہسپتالوں سے ریٹائرڈ ہوئے تو انھوں نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں پر قبضہ جمالیا اور ینگ ڈاکٹروں کے لئے راستے مسلسل مسدود ہوتے رہے جس کے نتیجہ میں ڈاکٹروں کی بڑی اکثریت نے ملک سے باہر جانے میں ہی عافیت سمجھی اور اب ملکی معاشی صورتحال نے تیزی سے لوگوں کے اندر یہ سوچ پیدا کردی ہے کہ لمبی لمبی ڈگریوں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی بجائے بچوں کو سکلڈ تعلیم دی جائے اور پھر آئی ٹی سیکٹر میں آنے والے انقلاب نے طلبا کو میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم سے متنفر کردیا اور اب طلبا آئی ٹی، روبوٹک سائنسز، مصنوعی ذہانت، سائبر سکیورٹی سمیت ایسے شعبہ ہات میں دلچسپی لینے لگے ہیں جہاں آن لائن روزگار کے مواقع بڑھنے لگے ہیں اور میڈیکل کی تعلیم کا دلکشی بھی ختم ہو گئی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ وہی پرائیویٹ میڈیکل کالجز جو لاکھوں روپے ڈونیشن وصول کرتے تھے اب منت سماجت پر آگئے ہیں کہ کسی طرح سے ان کی نشستیں پر ہو سکیں۔ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے ساتھ پی ایم ڈی سی کی خاص محبت ہے کہ جو ادارہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کو تیار نہیں ہے وہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی خاطر فوری طور پر اپنے اصول بدل لیتا ہے اور خبر ہے کہ اب کی بار ان کالجوں میں داخلے مکمل کرنے کے لئے داخلے کے بنیادی ماڈل میں بڑی تبدیلی کرتے ہوئے ساٹھ فیصد کی داخلہ پالیسی کو تبدیل کر کے پچاس فیصد کردیا گیا ہے اور یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز اپنی نشستوں کو مکمل کرکے منافع کما سکے اور اس کے نتیجہ میں ملک میں میڈیکل کی تعلیم کا معیار بھی گرانا پڑے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے پھر سے منڈی لگنے لگے گی کیونکہ پچاس فیصد تک میرٹ کے گرنے میں بہت سارے امیر زادے ڈاکٹر بننے کی قطار میں دستیاب ہونگے جبکہ پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کا جو بڑا ہائی فائی امیج بنا ہوا تھا وہ بھی زمین بوس ہو جائے گا اور اب مستقبل میں حالت یہ ہو گی کہ پنجابی اور کشمیریات جیسے مضامین میں بی ایس کرنے کے لئے میرٹ ڈاکٹر بننے سے زیادہ ہوا کرے گا اور آنے والے دنوں میں یقیناً پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے مالکان دوبارہ پی ایم ڈی سی سے درخواست کر رہے ہوں گے کہ چونکہ ان کے طلبا کا پچھلا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے چنانچہ ایم بی بی ایس میں پاس ہونے کے قواعد بھی مزید آسان کردئیے جائیں تاکہ ایک سیکنڈ ڈویژن میں انٹر کرنے والا طالب علم بھی میڈیکل کی تعلیم کے بعد ڈاکٹر کی ڈگری لے سکے اور اسی طرح سے فیلو شپ اور ایم ایس کے معیار پستہ ہوتے ہوئے ایسی حالت کو پہنچ جائیں گے کہ ملک میں نرسنگ کا معیار ایک ڈاکٹر سے زیادہ ہو جائے گا کیونکہ پچھلے سال جن بچیوں نے نرسنگ میں داخلہ حاصل کیا ہے ان کی اکثریت کے ایف ایس سی میں نمبر اسی فیصد سے زیادہ ہی ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ وطن عزیز میں جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس کے لئے ٹھوس پلاننگ نہیں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سے پندرہ سال میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز اس طرح سے بنائے گئے ہیں جیسے خود رو جڑی بوٹیاں اگتی ہیں اور اب جب کہ ان میڈیکل کالجوں کے مالکان کو پیسے کمانے کی لت لگ گئی ہے تو یقیناً یہ لوگ اپنی بقاء کو قائم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک لابنگ کریں گے اور ان کی خوش قسمتی ہے کہ پی ایم ڈی سی ان کی ہر کال پر ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی پی ایم ڈی سی نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی فیکلٹی ممبران کی عمر کی حد ستر سال سے بڑھا کر پچہتر سال کی گئی ہے اور اس کا صاف مقصد شاید یہی ہے کہ گھروں میں بیٹھے ریٹائرڈ افراد کو اٹھا کر ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں تعینات کرکے کم اجرت پر افراد کی بھرتی کی جائے لیکن ساتھ ہی سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو ادارے نئے ڈاکٹر بنا رہے ہیں وہی ادارے نئے ڈاکٹروں کو جھٹلا کر پرانے ریٹائرڈ افراد کو بھارتی کرنے میں مصروف ہونگے تو پھر نوجوان میڈیکل کی تعلیم کیوں حاصل کریں گے تو یقیناً ایسی انڈسٹری کو منہ کے بل پر گرنا ہی پڑتا ہے جہاں نئے آنے والے افراد کے لئے کیریئر کے مواقع دستیاب نہ ہوں۔ اب یہ بات تو طے ہے کہ آئندہ ڈاکٹر بننے کے لئے وہی لوگ آئیں گے جن کے والدین ڈاکٹر ہیں اور ان کے اپنے پرائیویٹ ہسپتال ہیں اور باقی نوجوان آئی ٹی کے شعبہ جات میں داخلہ کے خواہشمند ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ انجینئرنگ یونیورسٹی نے انجنئیرنگ کے مختلف شعبہ جات میں پری میڈیکل کے ساتھ ایف ایس سی کرنے والوں کو داخلہ کا اعلان کردیا ہے اور عین ممکن ہے کہ اگلے سال تک پی ایم ڈی سی بھی میڈیکل کالجوں میں داخلہ کے لئے آئی سی ایس اور پری انجنئیرنگ کرنے والوں کو بھی داخلہ کی پالیسی بنا دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں