(شبیر حسین لدھڑ)
گزشتہ 10 دن دنیا بھر میں سیاسی ہلچل اور سفارتی سرگرمیوں سے بھرپور رہے ہیں کہیں مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے ساتھ امیر ترین اسلامی ممالک کے ٹرلین آف ڈالرز کے نئے معاہدے ہورہے تھے تو کہیں سلطنت عثمانیہ کے مرکز یعنی ترکیہ میں یوکرین و روس کے مابین مزاکرات کا نیا دور شروع ہورہا تھا۔
کہیں جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کے مابین کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں ہورہی تھیں تو وہیں غزہ میں معصوم بچوں کی سسکیاں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتی نظر آرہی تھیں گویا دنیا کی سیاست و سفارتکاری کا مرکز کہیں نہ کہیں مسلمان یا اسلامی تعاون تنظیم کے رُکن ممالک رہے، لیکن ان عالمی گونجوں کے بیچو بیچ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک تاریخی اور سائنسی پیش رفت ہوئی، جس کی بازگشت آنے والے سالوں میں مسلم دنیا کے مستقبل کی سمت طے کرے گی۔
یہ بات ہے 18 سے 20 مئی 2025 کی، جب اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے تحت قائم OIC-15 ڈائیلاگ پلیٹ فارم کا دوسرا وزارتی اجلاس اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقد ہوا-
اس تین روزہ اجلاس میں برونائی، انڈونیشیا، ایران، قازقستان، ملائیشیا، پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، تیونس اور قطر سمیت رکن ممالک کے وزراء، سائنس و اعلی تعلیم، سائنسدانوں، ٹیکنالوجی ماہرین اور پالیسی سازوں نے شرکت کی۔
اجلاس کا موضوع تھا,“مصنوعی ذہانت کے ذریعے سائنس و ٹیکنالوجی میں جدت: امتیاز کی حکمتِ عملی، اسلامی دنیا کا روشن مستقبل”-
یہ اجلاس درحقیقت ایک خواب کی تعبیر تھا، جس کی بنیاد 2016 میں قازقستان کے اُس وقت کے صدر نورسلطان نظربایف
رکھی تھی۔ اس خواب کو عملی شکل 2023 میں الماتی (قازقستان) میں کامسٹیک کے اشتراک سے پہلا وزارتی اجلاس منعقد کر کے دی گئی، اور اب 2025 میں ایران نے دوسرا اجلاس کامیابی سے منعقد کر کے اسے نئی جہت عطا کی۔
کامسٹیک جو اسلامی دنیا میں سائنسی تعاون کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے اس پورے عمل میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے سیکرٹریٹ کی ذمہ داری بھی کامسٹیک کو دی گئی ہے اور کامسٹیک کا سیکرٹریٹ اسلام آباد میں ہے گویا اس پورے مشن میں کہیں نہ کہیں پاکستان شامل ہے جو امہ کو یکجا کرنے کی سعی میں کلیدی کردار کردار ادا کررہا ہے۔ کامسٹیک کے کوآرڈینیٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری سائنس و ٹیکنالوجی کے تعاون میں مسلم ممالک کو اکھٹا کرنے کا بیڑا چلارہے ہیں اس بیڑے میں سینکڑوں لوگ سوار ہیں جو اپنے اپنے حصے کی شمع جلارہے ہیں۔
اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر شکیل ارشد نے کی، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری کی قیادت میں کامسٹیک کے چار رکنی وفد نے شرکت کی۔
تہران اعلامیہ کے ذریعے رکن ممالک نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں باہمی تعاون، مشترکہ تحقیق، تربیت، انسانی وسائل کی ترقی، نجی و سرکاری اشتراک، اور پائیدار ترقی کے لیے نئی راہیں متعین کیں۔ اس اعلامیہ میں صحت، ماحولیاتی تبدیلی، غذائی تحفظ، اور پانی جیسے مسائل کے سائنسی حل کے لیے بھی اشتراک پر زور دیا گیا۔
یہ سب کچھ آج کا سفر نہیں۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ مسلمانوں کی سائنسی تاریخ اپنے اندر ایک عظمت رکھتی ہے جس پر اقوامِ عالم آج بھی رشک کرتی ہیں۔ الخوارزمی نے الجبرا کی بنیاد رکھی،
ابن الہیثم نے نظریہ بصارت اور روشنی کے اصول دریافت کیے،
البیرونی نے فلکیات اور ریاضی میں گراں قدر خدمات دیں،
ابن سینا کی “القانون فی الطب” کئی صدیوں تک طبی دنیا کا نصاب رہی، جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی کہا جاتا ہے،
الزرقالی نے فلکیاتی آلات اور کیلنڈر پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
لیکن سوال یہ ہے، کیا آج کی مسلم دنیا ان عظیم شخصیات کی وراثت کی امین ہے؟؟
نئی صدی کا سب سے بڑا میدان آرٹیفیشل انٹلیجنس کا ہے۔ جس ملک اور قوم کا اس پر عبور ہوگا مستقبل کا سہرا اسی کے سر پر سجے گا۔
اب نہ صرف جنگیں بلکہ معیشت، صنعت، تعلیم، طب، زراعت، اور میڈیا بھی مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔
کارخانے، کاروبار، حتیٰ کہ بین الاقوامی تعلقات کی پالیسیاں بھی AI الگورتھمز کے ذریعے تشکیل پا رہی ہیں۔
یہ وہ حقیقت ہے جسے او آئ سی رُکن ممالک کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا کہ سالوں سے چلے آرہے تجارت کے پرانے طریقوں پر انحصار کر کے یا روایتی صنعتوں کے سہارے معیشتیں نہیں سنبھلتیں۔ آج کی دنیا میں وہی قومیں زندہ رہیں گی جو سائنس، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں خودکفیل ہوں گی۔ اگر ہم عالمی سطح پر اپنی پہچان برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو سائنس و ٹیکنالوجی کی طرف واپسی ناگزیر ہے۔
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ عظمت فقط ماضی پر ناز کرنے سے نہیں آتی، بلکہ اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تدبیر، سرمایہ کاری، تعلیمی اصلاحات اور وژن درکار ہوتا ہے۔
تہران اجلاس اور تہران اعلامیہ بلا شبہ ایک نئی شروعات ہے۔ اس کا کریڈٹ جاتا ہے کامسٹیک کو، جس نے اسے نظریے سے عمل تک پہنچایا، اور ایران کو، جس نے اپنی سرزمین پر اس سائنسی بیانیے کو تقویت دی۔ یہ صرف ایک اجلاس نہیں، بلکہ امت مسلمہ کے سائنسی اتحاد کی نئی دستک ہے۔
یہ وقت ہے کہ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تک پھیلی امت مسلمہ اپنے سائنسی ورثے کو نہ صرف یاد کرے بلکہ اسے موجودہ ٹیکنالوجی، خصوصاً مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں میں نئی جہت دے۔یہ سفر شروع ہو چکا ہے اب رکنے کا وقت نہیں۔
اقبال کہتا ہے کہ
کھول آنکھ، فلک دیکھ، زمیں دیکھ فضاء دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اب واقعی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے ورنہ دیر ہوجائے گی