محسن پاکستان کو ہم نے ناراض رخصت کیا ، اللہ ہمیں معاف کرے

(تحریر :امیر محمد خان)
28 مئی کا سورج ہماری آزادی و خودمختاری کے تحفظ کا ضامن بن کر طلوع ہوا تھا۔ اس دن کو دنیا بھر میں پاکستانیوں نے فخر کے ساتھ کیک کاٹے دھواں دار تقاریر کیں خاص طور پر جب اسی ماہ کے اوائل میں ہم نے اپنی عسکری قیادت کی انتھکت محنت، جانفشانی، بہادری سے پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم رکھنے والے پڑوسی کومزے چکھائے جسکا مزا وہ تاحیات لیتے رہیں گے،بہادر عسکر ی اداروں کی پشت پر 28 مئی 1998ئ کو چاغی کی پہاڑیوں میں کئے جانے والا پاکستان کے ایٹم بم کا دھماکہ تھا ، اس دھماکے نے مغربی دنیا ، اور پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم رکھنے والو ں راتوں کی نیند حرام کردی، اور وہ سکتے کے عالم میں چلے گئے انہیں یہ گمان بھی نہ تھا کہ معاشی طور پر کمزور ملک، بے سروسامان ملک ایسا کرسکتا ہے، وہ ملک جو جنوبی ایشیا میں خود کو بڑی طاقت تصور کررہا تھا اس نے بین الاقوامی طور پر پاکستان کو مزید نقصان پہنچانے کی ٹھان لی ، اسکو یہ گمان بھی نہ تھا وہ اس زعم باطل میں مبتلا تھا کہ جنوبی ایشیا کا کوئی ملک بھی اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا لیکن پاکستان کی طرف سے ہونے والے ایٹمی دھماکوں نے اس کی قیادت کے اوسان خطا کر دئیے، اس کا تکبر اور زعم ہوا ہو گیا اور اسے طاقت کے توازن کے خیال نے ہی عدم توازن سے دوچار کر دیا۔ یہ اس ایٹمی صلاحیت ہی کا اعجاز ہے کہ آج پاکستان پر میلی نظر رکھنے والا کوئی ملک بھی تمام تر جارحانہ عزائم رکھنے کے باوجود پاکستان کے ساتھ ٹکر لینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ 1998ء کے بعد سے آج تک ایسے کئی مواقع آئے جب پاکستان اور اسکے اذلی دشمنوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکنے کے واضح امکانات پیدا ہو گئے تھے لیکن پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے باعث جنگ کی نوبت نہ آ سکی۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی لحمے دشمن تیار رہتے ہیں چاہے سفارتی سطح پر ہو یا اندرونی سطح پر ، دشمن اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے وطن عزیز پاکستان میں بیٹھے اسکے تنخواہ دار سہولت کاروں کو بھی استعمال کرتا ہے انہیں نیست و نابود کرنا حکومت کا فرض ہے، عسکری قیادت کہاں کہاں نمبرد آزما ہو، وہ تو سرحدوں پر قیمتی جانوں کا نذرآنہ خندہ پیشانی سے دے رہے ہیں وہ مائیں جنکے لخت جگر شہادت کا درجہ پاتے ہیں وہ الحمد اللہ کہہ کر اپنا دوسرا لخت جگر پیش کردیتی ہیں یہ مائین قوم کی مائیں ہیں جو آنکھوں میں آنسوو¿ں کا سمندر لئے اپنے لخت جگر کی شہادت پر الحمداللہ کہتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر پاکستان آج ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک نہ ہوتا تو بھارت، اسرائیل، پاکستان میں بیٹھے سہولت کاروں کے ذریعے اسکی سلامتی خدانخواستہ تاراج کردیتے، اندرونی سہولت کار کچھ پوشیدہ ہیں کچھ سیاست دانوں کا لبادہ اوڑھے ہیں اور پاکستان کے کچھ گمراہ، اور کچھ غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں اپنی مقبولیت کا سہارہ لیتے ہیں، دنیا نے دیکھا کہ 9مئی کو چند سال قبل پاکستان میں جو کھیل رچایا گیا، اگر سیاستی مخالفت ہوتی تھی مد مقابل سیاست دانوں کے گھروں پر حملہ کرتے، ایم ایم عالم کے یادگار جہاز کو توڑنا، ایٹمی دھماکے کی یادگار کو نقصان پہنچانا ، بانی پاکستان کی تصویر کو پیروں تلے روندنا ،پاکستان کے مضبوط عسکری اداروں، انکے سربراہوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بے ہودہ پروپگنڈہ کرانا یہ کونسی سیاست کی کتاب میں لکھاہے۔ آج دشمن الزام تراشی کرکے پاکستان کو بدنام اور اپنے بھونپوں میڈیاکے ذریعے لاہور کی بندر گا ہ کوتباہ کرکے اپنے معصوم عوام کوگمراہ کرتا ہے جس مضحکہ خیز خبروں کا خمیازہ اب وہ بھگت رہاہے۔ دو دن کی سرحدوں پر چپقلش کے اندر ہی دنیا درمیان میں آگئی اور صبر کرو، صبر کرو کی صدائیں مغربی دنیا اور اپنے آپ کو دنیا کا بادشاہ تصور کرنے والے ٹرمپ نے معاملات کی روک تھام کی ، اب دشمن ”کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ کے مصداق دنیا کے اہم لیڈران، چاہے وہ ٹرمپ، چینی قیادت، ترکی کی قیادت ہو اسکے خلاف پروپگنڈے پر اپنی توانیاں خرچ کررہا ہے۔پاکستان کی اس مضبوطی کے پشت پرمحسن پاکستان مرحوم ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں جو شہید ذولفقار علی بھٹو کے حکم پر بیرون ملک اپنی شاہانہ زندگی کو چھوڑکر پاکستان آگئے کہ ”گھر تو آخر اپنا ہے“ انہوں نے از خود 1971 ئ کے مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد شہید کو خط لکھا تھا اسوقت ضرورت ہے پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرے، اسکے بعد سے دیگر سائنس دانوں کی مدد سے دن رات محنت کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے باپ کے طور پر مشہور ہیں، نے ایک ایسی زندگی گزاری جس میں سائنسی کامیابیوں اور عوامی خدمات کا نشان تھا۔ پاکستان کی جوہری صلاحیتوں کو بڑھانے میں ان کے اہم کردار کے باوجود، ان کی سرکاری تنخواہ اور مراعات معمولی تھیں (یہ تو مہربانی ہے ہمیشہ کی طرح نوکر شاہی کی) ابتدائی کیریئر اور تنخواہ ڈاکٹر خان کو ماہانہ 3,000 روپے ملی، ان پر الزامات لگے کہ انہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی دیگر ممالک کو فروخت کی ہے انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کے اسمگلر بتایا گیا ، ان الزامات کی روشنی میں میری قارئین سے درخواست کے انکے کچھ انٹریوز یو ٹیوب پر دیکھیں وہ دیکھ کر کوئی محب وطن اپنے آنسوں نہیں روک سکے گا، چند سوال جواب یہاں تحریر کررہا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ ہم اپنے محسنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتیں ہیں شائد ہمارے اکابرین کے ذہنوں میں کچھ شرم آجائے۔ سوال۔آپ کے بیرون ملک بہت اثاثے ہیں، جواب۔۔میں نے حکومت کو اتھارٹی دے دی ہے، جو جو جہاں ہیں وہ لے لو، سوال۔۔کیا یہ الزامات جھوٹے ہیں۔۔ جواب۔۔ جھوٹے، پکے منافق جتنے ہمارے ملک میں ہیں کہیں نہیں، خاص طور پر حکمران، ڈاکٹر عبدالقدیر نے بتایا کہ ایک خاتون ٹی وی اینکر جو پہلے سبزی فروخت کرتی تھی کہتی تھی میرے اسلام آباد میں 23 بنگلے ہین، ٹی وی کے ایک چینل پر اپنے آپ کو مشہور صحافی از خود کہلانے والا میری نظر بندی کے بعد ٹی وی پر کہہ رہا تھا ڈاکٹر کی صرف گرفتاری کافی نہیں اسکے بیرون ملک اثاثے جو ملین ڈالرز ہیں وہ بھی لائے جائیں، سوال۔۔۔اپ سادہ سے انسان ہیں پھر یہ ایٹم بم بنانا سمجھ نہیں آتا۔۔جواب۔۔ ایٹمی ٹکنالوجی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کے اسے مارکر دنیا ختم کردو، یہ اپنی حفاظت کیلئے ہے کہ سرحدیں محفوظ ہوگئیں ہیں اپنی کاوشیں اب ملک کی معیشت کو بہتر کرنے پر صرف کرو، مگر ایسا اس ملک میں نہیں ہوا۔

سوال۔۔کیا ایٹمی ٹیکنالوجی کے بعد آپ پاکستان میں بجلی کے حوالے سے کام کرسکتے ہیں؟؟ جواب۔۔ سب کچھ ممکن ہے مگر ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہمارا جو حشر یہاں کیا گیا اب ہم اس ملک کیلئے کچھ نہیں کرینگے، معاملات جاہلوں کے ہاتھوں میں ہیں حکمران چور ہیں، چور لٹیروں کو کوئی نہیں پکڑتا، بیرون ملک دباو¿ کے نتیجے ہیں گھر میں بند کردیا گیا، جہاں ہم نے چھ سال گزارے ہماری بیٹی ہمارے گھر سے دو سو میٹر کے فاصلے پر رہتی ہے اسے ہم سے ملنے سے روک دیا گیا۔ہم نے اس ملک کو مضبوط کرنے کا عزم کیا تھا وہ کردیا، مگر حکمرانوں نے ہمارا یہ حشر کردیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر سے پوری پاکستان قوم ضرور شرمندہ ہے جس شخص کو باوقار اعزازات سے نوازا گیا، جن میں شامل ہیں: نشان امتیاز (1996، 1999)ہلال امتیاز (1989)مگر مرحوم پرویز مشرف نے انہیں خوف دلا کر کہ امریکہ ہم سے مطالبہ کررہا ہے کہ آپکے جرائم کی روشنی میں آپکو امریکہ کے حوالے کردیا جائے، آپ ہمیں اس عمل سے بچائیں، او ر سرکاری ٹی وی پر بزور طاقت ان سے بیان دلوایا گیا کہ وہ مجرم ہیں۔اسوقت کے وزیر اعظم مرحوم ظفراللہ جمالی کی مخالفت پر انہیں نااہل کہہ کر مشرف نے برطرف کردیا تھا ، جب ڈاکٹر عبدالقدیر کا اقبالی بیان پاکستان ٹیلی ویثرن پر نشر ہوا اس روز پرانے لوگ بتاتے ہیں وہاں کے اسٹاف کی آنکھوں میں آنسو تھے کچھ رونے کی آواز پر قابو نہ رکھ سکے اور دھاڑے مار کر رورہے تھے ڈاکٹر کے بیان پر نہیں بلکہ پرویز مشرف کے عمل پر۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں