فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی قبضہ آزادی کی آواز کو خاموش نہیں کرسکےگا: حماس

غزہ ۔حماس نے امدادی کشتی فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی افواج کے قبضے کو “مربوط ریاستی دہشت گردی” کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے اس اقدام سے غزہ کے لیے اٹھنے والی عالمی آوازیں خاموش نہیں کی جا سکتیں۔

جاری کردہ بیان میں حماس نے کہا کہ وہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے اُن بہادر رضاکاروں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے ہر قسم کی دھمکیوں کے باوجود اپنے مشن پر قائم رہ کر یہ واضح کر دیا کہ غزہ تنہا نہیں ہے۔

حماس کا مزید کہنا ہے کہ الجزائر، تیونس اور اردن سے روانہ ہونے والے امدادی قافلوں سمیت فریڈم فلوٹیلا اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے کی ناکامی کا عملی ثبوت ہیں۔ ان کوششوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی ہمدردی اور حقِ آزادی کی حمایت ایک عالمی فریضہ ہے۔

یاد رہے کہ اسرائیلی بحریہ نے غزہ کی جانب رواں دواں امدادی کشتی “میڈلین” کو بین الاقوامی پانیوں میں روک کر اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کشتی کا تعلق فریڈم فلوٹیلا کولیشن سے تھا، جس کا مقصد غزہ کے محاصرے کو چیلنج کرتے ہوئے وہاں انسانی امداد پہنچانا تھا۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے پہلے کشتی کا محاصرہ کیا، پھر الیکٹرانک کمیونیکیشن جام کر دی، مسافروں سے موبائل فون بند کروائے، اور یوں جہاز پر موجود افراد کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کشتی سے جاری لائیو نشریات بھی بند کر دی گئیں۔

مزید یہ کہ اسرائیلی فوج نے ڈرونز کے ذریعے کشتی پر حملہ کیا، اور ایک سفید کیمیکل اسپرے استعمال کیا جس سے افراد کی جلد متاثر ہوئی۔

اس امدادی مشن میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن سمیت گیارہ افراد سوار تھے۔ یہ کشتی 6 جون کو اٹلی کے جزیرے سسلی سے روانہ ہوئی تھی۔

اسرائیلی وزارت داخلہ نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “شو ختم ہو چکا ہے” اور اب فریڈم فلوٹیلا کے تمام شرکا کو ان کے ممالک واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی فلسطین کے لیے خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے کہا ہے کہ اگرچہ کشتی کا سفر ختم ہو چکا، مگر مشن جاری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بحیرہ روم کی ہر بندرگاہ سے ایسی امدادی کشتیاں غزہ کے لیے روانہ ہونی چاہئیں جو یکجہتی اور انسانیت کا پیغام لے کر آئیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں