بجٹ تماشہ

تحریر شاہد محمود
نیا بجٹ آگیا اور لوگ بجٹ کے فیصلوں پر چیختے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ لوگ ٹیکسوں کی بھرمار پر آہ و بکار کررہے ہیں تو سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کے مطالبے کرتے ہیں جبکہ میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا کہ کوئی بجٹ معاشی یا معاشرتی اصلاحات کے لئے پیش گیا گیا ہو یا پھر کسی بھی بجٹ میں معاشی ترقی کے لئے کوشش کی گئی ہو بلکہ ہر بجٹ فنانشل مینیجمینٹ کا ایک گورکھ دھندہ ہے جس میں ٹوٹل چار سے پانچ طبقات کے خرچے اٹھانے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں جبکہ باقی ساری عوام پر ان طبقات کے خرچے اور مراعات کے حصول کے لئے ٹیکس لگا دئیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں فنانشل مینیجمینٹ کی حالت بھی اس قدر پتلی ہے کہ بجٹ کے اعدادوشمار بھی کھربوں کے خسارے کے ساتھ پیش ہوتے ہیں اور پھر سال بھر اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے کسی نہ کسی کی گردن دبوچی جاتی ہے۔مجھے کئی بار بجلی کے محکمے کے معاملات دیکھنے کا موقع ملا ہے جہاں بل لے کر ایس ڈی او کے پاس چلے جائیں تو وہ بغیر کسی کیلکولیشن کے بل کو ہاتھ سے ہی کم یا زیادہ کر دیتا ہے اور کبھی سیگریگیشن کے نام پر اور کبھی اوور بلنگ کی مد میں لوگوں کے بل تبدیل ہو جاتے ہیں اور وہ جو بجلی کی قیمت یا خسارہ ہے وہ بدنما ٹیکسوں کی صورت میں لوگوں پر مسلط کردیا جاتا ہے اور تو اور ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ میٹر ریڈنگ کی تاریخ سے دو تین دن بعد کی ریڈنگ لےکر دو سو یونٹس کی سلیب تبدیل کرکے ہزاروں روپے کا ٹیکہ عوام کو لگا دیا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو بجلی کمپنیوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہے کہ حقیقی اعدادوشمار ہیں کیا اور یقین جانئیے کچھ اس طرح سے ہی بجٹ کے اعدادوشمار تیار ہوتے ہیں اور رف کاپی کی طرح کانٹ چھانٹ کرکے تمام اندازوں اور حقائق کو ہی تروڑ مروڑ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کا بجٹ دفاعی بجٹ میں اضافےسےشروع ہوتا ہے اور پھر سول اور ملٹری بیوروکریسی ، عدالتی سٹاف کی خوشنودی کے لئے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں اضافے کو شامل کیا جاتا ہے ، پارلیمٹیرین کو خوش کرنے کے لئے ترقیاتی بجٹ بڑھایا جاتا ہے اور پھر چندے اور مال مفت کے لئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اضافہ ہوتا ہے اور ان تین چار مدعات کو جمع کرلیں تو بجٹ کی رقم پوری ہو جاتی ہے جبکہ قرض اور سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لے کر گزارا کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ ملک کی کل آمدنی کے برابر ملکی قرضے ہوچکے ہیں اور پھر ان تین چار طبقات کی ضروریات ، عیاشیاں اور مراعات پورا کرنے کے لئے راستے ڈھونڈے جاتے ہیں جن میں آسان ترین راستہ پٹرول، بجلی اور گیس پر ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا ہے پھر جنرل سیلز ٹیکس کی چھری پھیرتے ہوئے مزید کچھ اشیاء پر ٹیکس لگایا جاتا ہے اور پہلے سے موجود ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی ہے اس کے بعد سگریٹ، گاڑیوں اور پراپرٹی پر ٹیکس تھوپا جاتا ہے پھر کوکنگ آئل، الیکٹرانکس کی گھریلو اشیا پر ٹیکس بڑھائے جاتے اور یہاں تک کہ چن چن کر ایسی تمام اشیاء کی پڑتال کی جاتی ہے جو عام لوگ اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں اور اس طرح ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ عام آدمی نہ تو گھر بنا سکتا ہے، نہ گاڑی خرید سکتا ہے ، نہ گھر میں ائر کنڈیشنڈ لگا سکتا ہے اور نہ ہی اسے چلا سکتا ہے اور تو اور لوگوں کے لئے کھانا بنانے کا ایندھن بھی اکثر لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے اور بات یہیں نہیں رکتی بلکہ اب لوگوں کے لئے بچوں کو تعلیم دینا بھی مشکل ہو گیا ہے اور مہنگی ٹرانسپورٹ کے ساتھ سکولوں تک پہنچنا بھی مشکل ہو گیا ہے، پینے کے پانی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے اور جو لوگ حکمرانوں کی نااہلیوں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے بھی پاؤں باندھنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ بجلی کی کمپنیوں سے بچنے کے لئے لوگ سولر لگارہے تھے اور اب سولر انرجی پر بھی ٹیکس مسلط کئے جارہے ہیں جبکہ ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے اپنی ٹرانسپورٹ خریدنے کی کوششوں کو بھی ناکام بنایا جا رہا ہے یعنی گاڑی خریدنا بھی مشکل اور چلانا بھی مشکل ۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات بجٹ بنانے کی ہرگز نہیں ہوتی ہیں بلکہ اپنے خرچے چلانے کے لئے ایک آئینی ضرورت کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں تقریباً ہر چیز پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس عائد ہے اور اکثر چیزوں کے خام مال سے لے کر تیار مال تک تین تین چار چار بار سیلز ٹیکس اور مختلف ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں اور مزے کی بات ہے کہ وطن عزیز میں جتنے بھی ٹیکس لگتے ہیں وہ براہ راست نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ملک کے ندر ایک تو ا نڈسٹری ہے ہی نہیں اور جو چند ایک صنعتیں موجود بھی ہیں وہ بھی بڑے خاندانوں کے قبضے میں ہیں جو ٹیکس دینے کی بجائے سبسڈی کے نام پر ٹیکس چوری کرتے ہیں جیسا کہ چینی کی صنعت اور ایگریکلچر وہ شعبے ہیں جہاں پر نوازشات ہوتی ہیں اور یہی وہ صنعتیں ہیں جہاں حکومتی محکموں کے ساتھ مل کر بجلی بھی چوری ہوتی ہے اور ٹیکس بھی چوری ہوتے ہیں بلکہ اس قدر بدمعاشی ہے مافیا نما افراد کی کہ وہ سیلز ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں لیکن اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ میں ملکی بجٹ کو نہ اہمیت دیتا ہوں اور نہ ہی اس سے کوئی امید رکھتا ہوں بلکہ ایسے بے ربط سسٹم کے اندر میں صرف اسی بات ہر امید لگانے پر مجبور ہوں کہ وطن عزیز میں اگر کچھ اچھا ہوا تو وہ قدرت کے کسی فیصلے کی ہی صورت میں ہو سکتا ہے ورنہ یہ بے حس نظام ترقی پسندی کے معاملے میں مکمل خاموش ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں