نئی نسل اور تربیت کا چیلنج

تحریر: عبدالحمید کشمیری
قوموں کی تعمیر و ترقی کا انحصار ان کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو اگر سنور جائے تو قوموں کو عروج تک پہنچا دیتی ہے، اور اگر بگڑ جائے تو پوری تہذیب کو زوال کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ آج کا نوجوان کئی حوالوں سے ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف سوشل میڈیا، ڈیجیٹل دنیا اور مادیت پرستی کے طوفان ہیں، تو دوسری طرف کردار، علم، دینی شعور اور خدمتِ خلق جیسے اعلیٰ اقدار ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو کس طرف لے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے ان کی اخلاقی تربیت کی فکر کی؟ کیا ہم نے انہیں مقصدِ زندگی سمجھایا؟ ہم نے انہیں مہنگے اسکولوں میں داخل تو کرایا، لیکن ان کے دل میں خوفِ خدا، سچائی، دیانت داری اور خدمتِ انسانیت کا جذبہ پیدا کیا؟ یہاں سب سے بڑی ذمہ داری والدین، اساتذہ اور معاشرے کی ہے۔ تربیت صرف نصیحت کا نام نہیں، بلکہ عملی نمونے دکھانے کا عمل ہے۔ جب والدین سچ بولیں گے، اساتذہ دیانتداری سے پڑھائیں گے اور معاشرہ انصاف پر چلے گا تو نوجوان خود بخود نیکی کی طرف مائل ہوں گے، اسلامی تعلیمات میں تربیتِ نفس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: “تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔” اس حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نوجوان صرف فرد نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے، آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر یا افسر بنانے کی فکر نہ کریں، بلکہ انہیں ایک سچا انسان، ایک باعمل مسلمان اور ایک باکردار شہری بنانے کی فکر کریں، ہمیں نئی نسل کو یہ باور کروانا ہوگا کہ زندگی کا اصل مقصد صرف دنیا کمانا نہیں، بلکہ اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا ہے، دنیا کی ہر قوم اپنی آئندہ نسلوں کی فکری و اخلاقی تربیت پر محنت کرتی ہے، لیکن ایک مسلمان قوم کا امتیاز یہ ہے کہ وہ دنیاوی کامیابیوں سے زیادہ اخروی فلاح کو اپنا ہدف بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں “دینی تربیت” کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج ہم اپنی نئی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ آج کا نوجوان ذہین ہے، باصلاحیت ہے، اور تیز رفتاری سے بدلتے حالات کو سمجھتا ہے۔ مگر وہ روحانی اور دینی خلا کا شکار بھی ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آیا ہم نے اسے دین کی روشنی دی؟ کیا اسے قرآن سے جوڑا؟ کیا اس کے دل میں اللہ اور رسول ﷺ کی محبت پیدا کی؟ اگر جواب “نہیں” میں ہے تو پھر ہم ایک عظیم نقصان کی طرف بڑھ رہے ہیں، دینی تربیت کا مطلب صرف چند دعائیں یاد کرا دینا یا نماز پڑھنے کا کہہ دینا نہیں، بلکہ یہ ایک جامع نظام ہے جس میں عقائد کی درستی، عبادات کی پابندی، اخلاق کی تطہیر اور سیرتِ رسول ﷺ سے جُڑنا شامل ہے، اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صحابۂ کرامؓ کی تربیت اسی بنیاد پر ہوئی۔ نبی اکرم ﷺ نے نوجوانوں کو دین کی اصل روح سے آشنا کیا، ان کے دلوں میں تقویٰ، اخلاص، قربانی، عدل، حلم اور سچائی جیسے جوہر پیدا کیے۔ یہی نوجوان بعد میں دنیا کے بہترین قائد، معلم، سپاہی اور حکمران بنے، مگر آج ہماری دینی تربیت صرف ظاہری مظاہر تک محدود ہو گئی ہے۔ دین کا اصل پیغام — “اللہ سے جڑنا، انسانیت سے خیر خواہی، اور نفس سے مجاہدہ” — ہمارے درسگاہوں، گھروں اور میڈیا سے غائب ہوتا جا رہا ہے، یہ ذمہ داری صرف مدارس یا مولوی حضرات پر ڈال دینا کافی نہیں۔ ہر گھر کو ایک چھوٹا مدرسہ بننا ہوگا۔ ہر ماں کو مربّیہ اور ہر باپ کو معلم بننا ہوگا۔ جب تک والدین خود دین سے جڑے نہیں ہوں گے، وہ اولاد کو دین دار نہیں بنا سکتے، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی ماحول کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دینی حلقے، سیرت کورسز، تربیتی ورکشاپس اور نوجوانوں کے لیے اسلامی رہنمائی کے فورمز وقت کی آواز ہیں۔ اسی کے ذریعے ہم نئی نسل کو وہ بنیاد دے سکتے ہیں جس پر ایک صالح معاشرہ کھڑا ہو سکتا ہے، آخر میں، ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے: “اے اللہ! ہماری نسلوں کو دین کی روشنی عطا فرما، اور انہیں اپنے محبوب ﷺ کی سچی محبت، اتباع اور سنت کا ذوق نصیب فرما، آمین.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں