(تحریر:امیر محمد خان)
الحمداللہ! سعودی عرب میں 2025 کا حج 1.6 ملین سے زیادہ بین الاقوامی عازمین کی شرکت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، واضح رہے کہ 19. COVID سے قبل یہ تعداد تقریباء 20لاکھ سے زائد ہوا کرتی تھی امسال یہ تعداد گزشتہ 30 سالوں میں سب کم رہی ، ماضی میں مقامی افراد کی بڑی تعداد نہ صرف حج بلکہ اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کرنے کیلئے بلااجازت حج اجازت نامے کے مکہ میں داخل ہوجا یا کرتے تھے اس سے ان لوگوں اور سعودی حکومت کے ان شاندار انتظامات کونقصان ہوتا تھا ، ماضی میں دیکھا گیا تھا حجاج یا کاروباری لوگ دوران حج مقدسہ مقامات پر سڑکوں پر ڈیرے لگالیا کرتے تھے جس سے ٹریفک،پیدل چلنے والے کو مشکلات پیش آتی تھی اس سال سعودی حکومت کے تمام اداروں نے ایسے بغیر اجازت ناموں کے مکہ المکرمہ ، اور مقامات مقدسہ پر داخلوں پر سخت نظر رکھی اور احکامات نہ ماننے والوں کیلئے سخت سزائیں اور جرمانے عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق سعودی عرب کے کئی قریبی شہروں سے بلااجازت حج یا کاروبار کیلئے آنے والوں کی تعداد دو لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ سعودی اداروں کی انتھک محنت سے ان تمام لوگوں کیلئے جو بیرون ملک یا اندرون ملک سے اس فریضہ کیلئے آئے تھے انکے لئے بہترین انتظامات کو ممکن بنایا گیا اس سال گرمی کی شدت بھی گزشتہ سالوں کے مقابلے میں زائد تھی، سعودی حکام کے سامنے گاشتہ حج میٰں گرمی کی وجہ سے 1300 حجاج کی اموات بھی تھیں
اس پر قابو کرنے کیلئے سعودی حکام نے حفاظتی پروٹوکول میں اضافہ کیا۔ ان میں سایہ کے لیے 10,000 درختوں کی تنصیب، ہسپتال کی گنجائش میں اضافہ، اور ہجوم کی نگرانی اور آگ کو روکنے کے لیے سرویلنس ڈرون کی تعیناتی شامل ہے۔ اس میں مسجد نمرہ میں دنیا کا سب سے بڑا ایئر کنڈیشنگ سسٹم شامل ہے، جس میں توسیع شدہ سایہ دار علاقوں، 400 کولنگ یونٹس، اور بار بار آنے والی شدید گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے طبی خدمات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ گرمی اور شدید گرمی کی وجہ سے بچوں کے آمد پر پابندی عائد کی گئی تھی حفاظت کو یقینی بنانے اور حاجیوں کی بڑی آمد کو منظم کرنے کے لیے، سعودی عرب نے داخلے کے سخت ضوابط نافذ کیے ہیں حکام نے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے پائیدار طریقوں کو اپنایا۔ اقدامات میں فضلہ کے انتظام کی کوششیں، ماحولیات کے لحاظ سے مخلصانہ رویوں کو فروغ دینا، اور صفر کاربن کا اخراج پیدا کرنے کے لیے الیکٹرک ہولی سائٹس ٹرین کا استعمال شامل ہے۔چند ممالک نے سعودی وزارت حج و عمرہ کے اعلان کردہ پرائیوٹ حج اداروں کو دی گئی تاریخ جس میں انہیں وزارت حج کو فروری کے آخری ہفتہ میں انتظامات کے حوالے سے رقم ادا کرنا تھی وہ نہ کی یہ ہمارے ملک کی بد انتظامی تھی کہ پاکستان کے 89,801حج سلاٹس میں سے صرف 23,620 عازمین حج ویزہ حاصل کرسکے اور اس سے 67,000 سے زیادہ عازمین حج کو مقدس سفر کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کمی کی وجہ ادائیگیوں میں تاخیر اور سعودی عرب کے بکنگ کے ضوابط کی عدم تعمیل کو قرار دیا گیا، جس میں انتظامات کی تصدیق کے لیے 14 فروری کی ڈیڈ لائن سے محروم ہونا بھی شامل ہے۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے اضافی سلاٹس کے لیے بات چیت کی کوششوں کے باوجود، صرف 10,000 اضافی اجازت نامے حاصل ہوسکے، پاکستان کا کل کوٹہ 179,210 تھا، جسے سرکاری اور نجی اسکیموں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کیا گیا۔
پرایؤٹ حج آپریؤٹرز نے وقت پر پاکستان میں عازمین س وصول کردہ رقم وعدے کے مطابق ادا نہ کرنے سے پاکستان کے مقرر کردہ کوٹے کیلئے انتظامات کرنا مشکل تھا اسلئے جن23,620کی رقم موصول ہوئی انہیں کیلئے انتظامات ہوسکے۔ اس معاملے کو وزیر اعظم میاں شہبازشریف تک پہنچایا گیا انہوں نے حقیقت معلوم کرنے کیلئے ایک تحقیقاتی ٹیم بھی بھیجی مگر وہ اپنا TA/DAہی بناسکے چونکہ اس میٰں کوئی غلطی سعودی انتظامات کی نہیں تھی، شنید ہے کہ دوران حج اس سنگین معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا اور اب تحقیقات شائد ہو ۔ چونکہ معصوم عازمین نے تو آپریٹرز کر فیس کی ادائیگی وقت پر کردی تھا پھر درمیان میں ”اللہ ہی جانے کو ن بشر ہے “جس وجہ سے یہ واقع ہوا پاکستانی پروائیوٹ حجاج کی رقم تاحال انہیں نہیں مل سکی اور شنید ہے کہ وہ اس رقم سے آئیندہ سال حج کا فریضہ ادا کرسکیں گیں یہ صورتحال صرف پاکستان کے ساتھ نہیں بلکہ ہندوستان کے پرائیوٹ آپریٹرز نے بھی یہ کارنامہ انجام دیا اور عازمین سے وصول کردہ رقم اپنے بنکوں میں ڈال دی اور اللہ کو علم کہ کیا وہ بنک سے فائدہ اٹھانے کیلئے تھی؟اسی طرح کے چیلنجز بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک میں بھی رپورٹ ہوئے، جہاں مالی مجبوریوں اور طویل انتظار کی فہرستوں نے بہت سے لوگوں کو حج کرنے سے روک دیا۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں، حج کی لاگت ممنوعہ حد تک زیادہ رہی، اور بہت سے لوگوں کو جگہ حاصل کرنے کے لیے طویل انتظار کی فہرستوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سعودی حکومت اور اسکے تمام ادارے موسم حج کے ختم ہونے کے ساتھ حج کے دوران ہونیوالے واقعات کو نوٹ کرکے ایک سال قبل ہی سے آنے والے حج کے انتظامات شروع کردیتے ہیں اس بناء پر حج پرامن ہوتا ہے، اور صرف 1.6 ملین ہین نہیں بلکہ ہو 3ملین سے زائد عازمین کیلئے بہتر انتظامات کرسکتے ہیں عازمین کیلئے بہتر انتظامات کرنے کی ہدائت خادم الحرمین شریف شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمانکی جانب سے تمام متعلقہ اداروں کو ہے۔ افسوس اس بات کا ہے ہم بہ حیثیت پاکستانی نہ جانے کیوں معاملات کو بر وقت نہیں لیتے جس بناء پر ہمارے حجاج مشکلات کا شور مچانے پر مجبور ہوتے ہیں یہ بات صحی ہے کہ مشکلات کا نام ہے مگر ہم نے ان مشکلات کو صبر کانام دے دیا ہے ہم بہتر کرسکتے ہیں مگر ہم سیاست میں مصروف ہوتے ہیں ورنہ اسکا کیا جواب ہے حج پالیسی ہمیشہ تاخیر سے آتی ہے یہ وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے نجی حج منتظمین کو منیٰ اور عرفات میں مقررہ زونز میں حاجیوں کے لیے رہائش کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ؎ پاکستان کی حج پالیسی 2025 کی منظوری میں تاخیر نے پرائیویٹ آپریٹرز کو وقت پر درخواستیں جمع کرانے سے روک دیا۔ دوران حج وزارت حج پاکستان کے ترجمان عمر بٹ کی ”سب اچھا“کی رپورٹ ملتی رہے دوسری جانب حج پر آئے ہوئے احباب ناقص کھانوں، حرم سے دوررہائش جس بناء پر وہ بمشکل ایک ہی وقت سے نماز پڑھ سکتے تھے گو کہ پرائیوٹ حجاج کی تعداد کم تھی مگر پھر بھی بعض ٹریول ایجنسیوں کی جانب سے دھوکہ دہی کی رپورٹس منظر عام پر آئیں، جہاں حجاج کرام کو مقدس مساجد کے قریب فائیو اسٹار ہوٹلوں میں رہائش کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بجائے انہیں غیر معیاری رہائش فراہم کی گئی تھی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب کسی پاکستانی حاجی نے شکائت کی ان سے کہ کہہ دیا گیا کہ ہماری غلطی نہیں ہے اب وزیر اعظم ہی امور کو دیکھ سکتے ہیں ۔ایک مرتبہ پھر ایک بہترین پرامن، اور بہتر ین انتظامات جو سعودی اداروں کے ذمہ تھے انہوں بہ حسن خوبی کئے جسکے لئے شہزادہ محمد بن سلمان اور تمام متعلقہ محکمے مبارکباد اور دعاؤں کے مستحق ہیں .