تحریر انور خان لودھی
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایران اور اسرائیل کی جنگ شروع ہو چکی، سفارتی ذرائع ڈیڑھ دو ہفتوں سے باخبر تھے کہ اسرائیل ایران کے خلاف جارحیت کرنے والا ہے۔ 13 جون کو علی الصبح اسرائیل نے دارالحکومت تہران پر میزائل داغ دئیے جس سے ایران کی فوجی لیڈرشپ شہید ہوئی، جوہری اور عسکری تنصیبات تباہ ہوئیں اور عام شہری بھی بڑی تعداد میں جاں بحق ہوئے۔ 13 جون کی رات کو ایران نے ہائپر سونک میزائلوں سے اسرائیلی شہروں کو لرزا دیا۔ ایران کے اسرائیل پر جوابی حملوں میں تین اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر حملے جاری رکھنے کا عندیہ دیا یے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے میزائل حملے جاری رکھے تو پھر تہران ’آگ کے شعلوں کی نظر ہو جائے گا۔ فوجی حکام کے ساتھ ایک جائزہ سیشن کے دوران وزیر دفاع نے ایران کی قیادت کو ہدف تنقید بنایا اور یہ تبصرہ کیا کہ ایرانی آمر عوام کو یرغمال بنا رہا ہے اور ایک ایسی صورتحال کی طرف جا رہا ہے کہ جس میں وہ خاص طور پر تہران کے رہائشی، اسرائیلی شہریوں پر مجرمانہ حملے کی بھاری قیمت ادا کریں گے۔ اسرائیل کو ایک تو ایران کی جوہری قوت بننا کبھی پسند نہیں رہا۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملوں کی تارخ چار دہائیوں پر محیط ہے۔ امریکہ اسرائیل کا پشتیبان ہے، ہر لمحہ اس کی سرپرستی کرتا ہے۔ اسرائیل کی چھیڑی یوئی جنگوں کو ختم کرنے بار ہوتی ہے تو امریکہ سلامتی کونسل میں اس کو درجنوں بار ویٹو کر چکا ہے۔ اسرائیل کا ایران سے کینہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ جنگ جلد رکنے والی نہیں۔ اگر اس لڑائی میں مزید شدت آتی ہے اور یہ بڑھ جاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ امریکہ کے تمام تر انکار کے باوجود ایران ایران کو یہ لگتا ہے کہ امریکی فورسز نے اسرائیل کو شہ دی ہے یا کم از کم اسرائیلی حملوں کی کھل کر حمایت کی ہے۔ایران مشرق وسطی میں امریکی اہداف، جیسے عراق میں سپیشل فورسز کے کیمپس، خلیج میں فوجی اڈے اور اس خطے میں سفارت مشنز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ حماس اور حزب اللہ ممکن ہے کمزور ہو گئے ہوں مگر عراق میں ملیشیا ابھی بھی مسلح ہے اور کارروائیاں کر رہی ہے۔ اگر ایران اسرائیل کی محفوظ فوج اور دیگر اہداف کو تباہ نہ کر سکا تو پھر ایرانی میزائلوں کا ہدف خلیجی ممالک میں عوامی مقامات ہوں گے خاص طور پر وہ ممالک نشانے پر ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں ایران یہ سمجھتا ہے کہ وہ سالہا سال سے اس کے دشمنوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب ان ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈے بھی ہیں۔ اگر خلیج پر حملہ ہوتا ہے تو پھر یہ ممالک اپنے اور اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکہ طیاروں کو متحرک کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ گذشتہ روز اسرائیل نے یہ واضح کیا ہے کہ اس کا بڑا ہدف تو ایران سے اس اسلامی حکومت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ایران کی حکومت کو گرانے کا منصوبہ اسرائیلیوں سمیت خطے میں کچھ اور ممالک بھی شاید اچھا لگے۔ مگر پھر یہ منصوبہ آسان نہیں۔ ویسے بھی انسان کچھ سوچتا ہے جبکہ رحمان کی مشیت کچھ اور ہوتی ہے۔ خطے کی صورت حال پر ایران کے ہمسایہ ممالک اور امت مسلمہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ پاکستان نے جمعہ کو بلائے گئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں کہا ہے کہ ایران کی جوہری اور عسکری تنصیبات پر اسرائیلی حملے نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے ’سنگین خطرہ‘ ہیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق 15 رکنی سلامتی کونسل نے اپنی معمول کی کارروائی معطل کرتے ہوئے اس بگڑتی ہوئی صورتحال پر غور کیا۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ نے بھی شرکت کی اور علاقائی استحکام اور جوہری سلامتی کو لاحق شدید خطرات سے خبردار کیا۔ پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے اپنی تقریر میں ایران پر اسرائیلی جارحیت کو ’غیر ضروری اور غیر قانونی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور ایران کی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہ ہنگامی اجلاس ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی کی درخواست پر بلایا گیا جنھوں نے کہا کہ اسرائیل ’تمام حدیں پار کر چکا ہے اور عالمی برادری کو اس کے جرائم کی سزا دیے بغیر نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پاکستانی مندوب نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے فوری طور پر اسرائیلی جارحیت کو روکے اور اس بحران کا حل بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے نکالا جائے۔ ادھر پاکستان کی قومی اسمبلی میں کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا ہے کہ اگر مسلم دنیا متحد نہ ہوئی اور اپنے ایجنڈے کے تحت اپنے مفادات کا تحفظ کرتی رہی تو سب کی باری آئے گی۔ انھوں نے ہفتے کے روز قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی بچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، اسرائیل کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون میں رنگے ہیں۔ وزیرِ دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران ہمارا ہمسایہ برادر ملک ہے، ہمارے ایران کے ساتھ ایسے رشتے ہیں جس کی تاریخ میں کم مثال ملتی ہے، اسرائیل نے ایران، فلسطین، یمن کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے، مسلم دنیا متحد نہ ہوئی اور اپنے ایجنڈے کے تحت اپنے مفادات کا تحفظ کرتی رہی تو سب کی باری آئے گی۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر مسلم ممالک فوجی اعتبار سے بہت کمزور ہیں۔‘ انھوں نے مطالبہ ’او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے، مسلمان ممالک مل کر ایسی سٹریٹیجی بنائیں جس سے اسرائیل کا مقابلہ کیا جا سکے۔ وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ ’جس طرح فلسطین میں بچوں کو شہید کیا گیا، ظلم کیا گیا، اسلامی ممالک میں اس طرح آواز نہیں اٹھ رہی، غیر مسلموں کے ضمیر جاگ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے نہیں، مسلم دنیا کےکچھ ممالک کے اسرائیل سے تعلقات ہیں، وہ تعلقات منقطع کر دیں۔۔وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ’جب انڈیا نے ہم پر حملہ کیا تو ہم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو مٹی میں رول دیا، کل ایران میں ان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس میں اسرائیل اکیلا نہیں ہے انھیں ہر قسم کا کور فراہم کیا گیا۔ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عالم اسلام کا اتحاد نظر آئے۔ اسرائیل باری باری اسلامی ملکوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کی پشت پر امریکہ اور گنتی کے آٹھ دس ملک ہیں۔ دوسری جانب نصف صد کے قریب اسلامی ممالک نفاق کا شکار اور یکساں مؤقف اپنانے سے معذور ہیں۔ اگر عالم اسلام متحد یو جائے تو اسرائیل کو بندے کا پتر بنانے کے ایک سو ایک رست کھل سکتے ہیں۔ امت مسلمہ پلیز جاگ جاؤ۔
