(تحریر: شاہد محمود )
فلاحی ریاست میں حکومتوں کا مطمع نظر عوامی فلاح کے منصوبے ہوا کرتے ہیں اور حکومتیں دن رات لوگوں کی تعلیم، صحت پر توجہ دینے میں مصروف رہتی ہیں اور وہیں پر ملک کے اندر انصاف کے اداروں میں اصلاحات لاتی ہیں تاکہ تمام لوگوں کو ان کے حقوق مل سکیں اور لوگ آزادانہ اپنے کاروبار زندگی کو چلا سکیں اور ملک میں پر سکون کاروبار ترقی کر سکے اور ریاست امیر ہو سکے اور کمزوروں یا بیماروں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک خوبصورت معاشرتی ماڈل تشکیل پا سکے۔ فلاحی ریاست میں حکومتیں کاروبار نہیں کرتی ہیں بلکہ کاروبار کرنے والوں کو تحفظ اور آسودگی فراہم کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں ملکی معیشت ترقی کرتی ہے اور ریاست امراء پر ٹیکس لگاتی ہے جو کہ اصل میں ان سہولیات اور تحفظ کی قیمت ہوتی ہے جو حکومتیں کاروباری افراد اور کمپنیوں کو فراہم کرتی ہیں۔ یہ ٹیکس چھینا جھپٹی ہر گز نہیں ہوتے ہیں کہ حکومتیں لوگوں کو ڈنڈے کے زور پر غیر فطری ٹیکس مسلط کریں لیکن وطن عزیز کی بدقسمتی ہے کہ حکمران دھائیوں سے کمرشل محکمے چلارہے ہیں جس کے نتیجہ میں کاروباری افراد حکومتوں پر قابض ہو گئے ہیں جیسا کہ منافع کمانے کی سوچ رکھنے والے بینکرز ملک کے وزیر خزانہ بننے لگے جن کی سوچ سرمایہ اکٹھا کرنے اور اس پر سود اکٹھا کرنے کی ہوتی ہے اور یہ لوگ حکومتوں کو قرضے دیتے دیتے خود حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ حکمران اب کمرشل اداروں کو فلاحی اداروں کی طرح چلاتے ہیں اور فلاحی اداروں کے اندر سے منافع کمانے لگے ہیں اور ہمارا حکومتی ماڈل آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے بجٹ پلاننگ اور ترقیاتی سوچ کے فقدان کا شکار ہوتے ہیں اور حکمران اپنے خرچے پورے کرنے کے لئے ایسے ٹیرف لگاتے ہیں کہ منافع بخش کاروبار بھی منہ کے بل گر جاتے ہیں ۔ جب حکمران کمرشل اداروں کو چلانے لگتے ہیں تو پھر اپنی ہی عوام کو لوٹنے لگتے ہیں اور دوسری طرف ان کمرشل محکموں کے اندر موجود ملازمین کے نخرے اٹھانے لگتے ہیں اور بد ترین پرفامنس کے باوجود ان کو بونس اور تنخواہوں میں اضافہ فراہم کرتے ہیں۔ جب کمرشل محکموں میں بدترین خسارے آنے لگیں تو ان محکموں میں چھانٹی ہوتی ہے جبکہ ہماری حکومتیں نااہل ملازمین کو دھائیوں سے نوازتی چلی آرہی ہیں اور دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ عام آدمی ان کمرشل محکموں کی عیاشیوں، نااہلیوں اور بد عملیوں کی سزا مہنگائی اور ٹیکسوں کی صورت میں برداشت کرتا ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کی حالت اس قدر غیر فطری ہو چکی ہے کہ اب یہ لوگ عوام سے ناجائز منافع کمانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں اور اب حکومتی بجلی اس قدر مہنگی ہے کہ خریدنا مشکل ہو گئی ہے اور پھر حکمران ہیں کہ حیلے بہانوں سے بجلی کی فروخت پر ناصرف بے شمار منافع کماتے ہیں بلکہ اسی بجلی پر ٹیکس لگا کر انھیں کمرشل محکموں کے خرچے برداشت کرتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی پر ٹیکسوں کی ناصرف بہتات ہے بلکہ ناجائز منافع کمانے کی حرص بھی ہے یہی وجہ ہے کہ دو سو یونٹس کا بل دو ہزار اور دو سو ایک یونٹس کا بل آٹھ ہزار روپے سے بھی تجاوز کر جاتا ہے جو کہ سراسر نا جائز منافع ہے اور مزے کی بات ہے کہ یہ سارے پیسے بجلی کمپنیوں کے غیر فطری معاہدوں کی صورت میں چند سرمایہ داروں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں جو بجلی پیدا تک نہیں کرتے ہیں اور یہ تماشہ تین دھائیوں سے چلتا آرہا ہے اور ان تیس سالوں میں فوجی حکمران بھی آئے اور سول حکومتیں بھی کام کرتی رہی ہیں اور ان سب حکمرانوں کی ہمدردیاں عوام کی بجائے بجلی کے سرمایہ داروں اور بدترین معاہدے کرنے والی بیوروکریسی اور بجلی کے محکمے میں کرپٹ عناصر کے ساتھ ہے جن کا کسی نے احتساب نہیں بلکہ ان کو انعامات سے نوازا ہی گیا ہے۔ اسی طرح کی حالت پٹرول کی ہے جس کو خرید کر حکومتیں پاور پلانٹس کو دیتی ہیں اور پھر فیول ایڈجسمنٹ عوام کی جیبوں سے نکلواتی ہیں اور حکمرانوں اور بیوروکریسی کی بد عملیوں کی سزا غریب آدمی دھائیوں سے بھگت رہا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول سستا ہو یا مہنگا لیکن ہمیں مہنگا ہی ملتا ہے اور پھر گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی عام آدمی کے لئے ہیں جبکہ بد عملیاں پھیلانے والے حکمران یہ سب چیزیں مفت میں انجوائے کرتے ہیں اسی طرح پی آئی اے کے کرائے اور ریلوے کے کرائے اس قدر زیادہ ہیں کہ ان سے کم کرائے میں لوگ بہترین بس سروس استعمال کر لیتے ہیں تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب عوام کو کوئی فائیدہ ہی نہیں ہونا ہے تو پھر ان محکموں کے پچاس پچاس ارب کے خسارے عوام کے نصیب میں کیوں ہیں جبکہ خساروں کے ذمہ دار ملازمین مفت ٹکٹوں کے مزے لوٹتے ہیں اور عوام اس کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ دوسری طرف فلاحی اداروں کی حالت یہ ہے کہ ملک کے اندر کچھ پرائیویٹ تعلیمی گروپوں کا سائز سرکاری تعلیمی اداروں سے بھی بڑا بن چکا ہے جیسا کہ پنجاب گروپ، یونیک گروپ، سپیریئر گروپ اور کپس جیسے تعلیمی اداروں نے حکمرانوں کا سارا بوجھ اٹھا کر عوام کو منتقل کردیا ہے اور ایسی ہی حالت کالج اور یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کی ہے اور اس پر حکومت بچے کھچے تعلیمی اداروں کی فیسیں کم کرنے کی بجائے مسلسل ان میں اضافہ کرتی جارہی ہیں اور یہاں تک کہ پنجاب یونیورسٹی ، انجینئرنگ یونیورسٹی ، زرعی یونیورسٹی سمیت جی سی کالج ، لاہور کالج فار وومن سمیت اکثر پبلک تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے مطلب یہ کہ اب حکومت عوام کو مفت تعلیم دینے کی بجائے منافع کما کر فروخت کرنے لگی ہے اور اسی طرح کی حالت صحت کی ہے جہاں پر پرائیویٹ ہسپتالوں کی سہولیات بڑھ رہی ہیں اور سرکاری ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ وہاں ڈاکٹر تک دستیاب نہیں ہوتے ہیں جبکہ انصاف تو پہلے ہی اس قدر مہنگا ہے کہ عام آدمی تو کسی پولیس کے کانسٹیبل کے خرچے پورے نہیں کرسکتا ہے وکلاء اور عدالتیں تو بڑی دور کی بات ہے اور اب منافع کمانے کی ہوس میں مبتلا حکمران شناختی کارڈ فیس، پاسپورٹ فیس، ڈرائیونگ اور اسلحہ لائسنس فیسوں پر بھی مال کمانے لگے ہیں جبکہ ان ہی محکموں کے ملازمین کرپشن سے جو مال عوام کی جیبوں سے نکلواتے ہیں وہ الگ ہے۔ بات یہ ہے کہ جن حکمرانوں کو خود ناجائز منافع کمانے کی لت لگ جاتی ہے وہ کسی صورت میں ملک کے اندر مہنگائی کم کرنے کی خواہش نہیں رکھتے ہیں اور اخلاقی جواز تو شاید حکمرانوں کے لئے بنا ہی نہیں ہے۔ اب یہ بات تو سمجھنا نہایت آسان ہے کہ عوام سے کاروبار کرنے والے لوگ حکمران نہیں ہوتے ہیں بلکہ بدترین بزنس مین ہوتے ہیں اور ہم اس وقت منافع خور حکمرانوں کے نرغے میں ہیں اس لئے مہنگائی کم ہونے کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی ہے۔
