پینڈوز اینڈ ڈاگز آر ناٹ الاوڈ ، مصطفےٰ صفدر بیگ کا کالم

جناب جاوید چودھری کی “دیوار چین سے” 15 تاریخی اور فاش غلطیاں

(تحریر: مصطفےٰ صفدر بیگ)
مشہور کالم نگار جاوید چوہدری کا نیا کالم “دیوار چین سے” سفرنامے اور تاریخی تجزیے کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ یہ تحریر روایتی سادہ بیانی اور منظر کشی کی خوبیوں کی حامل ضرور ہے، لیکن جب تاریخی حقائق اور اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اس میں درستگی کی کمی اور بے شمار سقم اور مبالغے سامنے آتے ہیں۔

سفرنامے کی صنف میں مبالغہ اور تشبیہ عام ہے لیکن جب تاریخی حوالہ دیا جائے تو صحافتی دیانت کا تقاضا ہے کہ وہ درست اور مستند ہو۔ کالم نگار نے دیوار چین کے حوالے سے جو دعوے کیے ہیں، وہ مستند تاریخی ریکارڈ، آرکیالوجیکل تحقیق اور عالمی اداروں کے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کالم کو پڑھ کر قاری کو دیوار چین سے متعلق کئی غلط فہمیاں لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔

کالم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ چینی قوم کی مستقل مزاجی اور دشمنوں کے خلاف دفاع کی حکمت عملی نے اسے عظیم بنایا، جس کی سب سے بڑی علامت دیوار چین ہے۔ یہ نقطہ نظر اپنی جگہ مفید ہے لیکن جب اس نظریے کو غیر مستند اعداد و شمار اور تاریخی غلطیوں کے ساتھ پیش کیا جائے تو تحریر کی اعتباریت مجروح ہوجاتی ہے۔

*فیکٹ چیکنگ اور کالم میں غلط بیانیاں*
کالم میں بتایا گیا ہے کہ زمین کا قطر 20 ہزار کلومیٹر ہے
*حقیقت یہ ہے کہ*
زمین کا قطر تقریباً 12756 کلومیٹر ہے۔ جاوید چوہدری نے زمین کے محیط اور قطر کو خلط ملط کردیا ہے۔ واضح رہے کہ زمین کا محیط 40075 کلومیٹر ہے۔
کالم میں دیوار چین کی لمبائی 21196 کلومیٹر بتائی گئی ہے

*حقیقت یہ ہے کہ*
چینی محققین اور یونیسکو کے مطابق تمام حصے ملا کر دیوار کی لمبائی 21196 کلومیٹر بنتی ہے، لیکن یہ چھوٹے بڑے ٹکڑوں، خندقوں اور قدرتی دفاعی رکاوٹوں کو ملا کر بتائی جاتی ہے۔ انسانوں کی بنائی ہوئی اصل اور مسلسل دیوار کا حصہ اس بیان کردہ لمبائی سے کہیں کم اور اکثر مقامات پر منقطع ہے۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ اگر دیوار کو شمال سے جنوب سیدھا کیا جائے تو زمین کے کرے سے باہر نکل جاتی

*حقیقت یہ ہے کہ*
یہ دعویٰ سائنسی لحاظ سے محض مبالغہ ہے۔ اگر کوئی بھی چیز 21 ہزار کلومیٹر لمبی ہو تو وہ زمین کے نصف محیط کے برابر ہوسکتی ہے مگر زمین کے کرے سے باہر نکلنے کا تصور فضول ہے۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیوار چین مسلسل 2300 سال تک بنتی رہی

*حقیقت یہ ہے کہ*
دیوار چین مختلف ادوار میں بنتی اور ٹوٹتی رہی۔ اس دیوار کی سب سے زیادہ فعال تعمیر قِن سلطنت (221 قبل مسیح) اور مِنگ سلطنت (14ویں تا 17ویں صدی) میں ہوئی۔ درمیانی وقفوں میں کئی صدیوں تک اس کی تعمیر یا توسیع نہیں ہوئی۔ اس لیے 2300 سال تک لگاتار تعمیر کیے جانے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آج بھی 8800 کلومیٹر دیوار موجود ہے

*حقیقت یہ ہے کہ*
یونیسکو کے مطابق دیوار چین کا اصل اور محفوظ حصہ 6259 کلومیٹر کے قریب ہے۔ باقی حصہ کھنڈرات، قدرتی رکاوٹیں یا آثار قدیمہ کی صورت میں ہے۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ دیوار چین کی اوسط اونچائی 25 فٹ ہے

*حقیقت یہ ہے کہ*
دیوار چین کی اونچائی مختلف مقامات پر 15 فٹ سے لے کر 30 فٹ تک ہے۔ اس کی کوئی “اوسط” سرکاری طور پر نہیں ہے۔ (اگر بالفرض ریاضی کا “جٹکا” استعمال بھی کرنا ہو تو یہ اوسط 22.5 فٹ بنتی ہے)۔ عمومی طور پر مِنگ دور میں بننے والی دیوار کی اونچائی 20-26 فٹ مانی جاتی ہے۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ گھاس کے میدان (سٹیپ) موجودہ جاپان تک پھیلے ہوئے تھے۔

*حقیقت یہ ہے کہ*
وحشی قبائل سائبیریا اور منگولیا تک محدود تھے۔ جاپان تک “گھاس کے میدان” کا دعویٰ تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ دیوار چین میں ہر ایک کلومیٹر بعد مضبوط دروازے تھے

*حقیقت یہ ہے کہ*
دیوار پر برج یعنی واچ ٹاورز بکثرت بنائے گئے تھے، لیکن دیوار میں دروازے کم اور مخصوص فوجی چوکیوں پر تھے۔ ہر کلومیٹر پر دروازے کا تصور بڑا مبالغہ ہے۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ گھوڑا اور سوار دیوار پھلانگ نہیں سکتے تھے

*حقیقت یہ ہے کہ*
حملہ آور قبائل بعض مقامات پر دیوار عبور کر جاتے تھے۔ دیوار رکاوٹ ضرور تھی لیکن ناقابلِ عبور نہیں تھی۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ دیوار میں سپاہیوں کی رہائش گاہیں تھیں

*حقیقت یہ ہے کہ*
بُرجوں میں چوکیدار اور سپاہی وقتی طور پر تعینات رہتے تھے، لیکن دیوار میں ان کی باقاعدہ رہائش گاہیں نہیں تھیں۔ سپاہی عموماً قریبی قلعوں اور چوکیوں میں مقیم رہتے تھے۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ چنگیز خان گوبی صحرا سے نکلا

*حقیقت یہ ہے کہ*
چنگیز خان کا اصل علاقہ منگولیا کی سٹیپ (گھاس کا وسیع میدانی علاقہ) تھا، وہ گوبی صحرا سے “نکلا” نہیں بلکہ اس کے جنوب میں آباد تھا۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قبلائی خان نے یوآن سلطنت بنائی اور کرنسی نوٹ کا آغاز کیا

*حقیقت یہ ہے کہ*
کاغذی نوٹ کا آغاز یوآن سلطنت سے پہلے سونگ سلطنت (960–1279) کے دور میں ہوا۔ قبلائی خان نے کاغذی کرنسی کو رائج ضرور کیا، لیکن وہ اس کا بانی نہیں تھا۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ قبلائی دور میں کرنسی نوٹ یوآن کہلاتا تھا

*حقیقت یہ ہے کہ*
سونگ دور کے قدیم کاغذی نوٹ “جیاؤزی” اور دیگر مقامی ناموں سے جانے جاتے تھے۔ “یوآن” بطور جدید چینی کرنسی 19ویں صدی کے آخر میں رائج ہوا۔
کالم میں کہا گیا ہے کہ دیوار چین میں سیڑھیاں آج کے زمانے میں بنیں

*حقیقت یہ ہے کہ*
اصل مِنگ دور کی بنی دیوار میں بھی سیڑھیاں اور ڈھلوانیں دونوں موجود تھیں۔ یہ سب کچھ جدید تعمیرات نہیں ہیں۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دیوار چین میں پانچ لاکھ غلاموں کا خون اور ہڈیاں استعمال کی گئیں

*حقیقت یہ ہے کہ*
یہ دعویٰ افسانوی داستان ہے جس کا کوئی آرکیالوجیکل ثبوت موجود نہیں۔ مزدوروں کی اموات حقیقت ہے مگر خون اور ہڈیوں کو دیوار میں استعمال کرنے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔

مختصر یہ کہ اس کالم میں تاریخی حقائق کی غیر مستند تشریح کی گئی ہے، مبالغہ آمیز بیانیہ اختیار کیا گیا ہے جو سائنسی بنیادوں پر غلط ہے، انسانی قربانیوں کی رومانوی داستانیں شامل کی گئیں اور زمین کے جغرافیہ پر سائنسی اور ریاضیاتی غلطیاں موجود ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں