(تحریر:امیر محمد خان )
کسی بھی ملک کا بجٹ مفروضوں، اور اعداد و شمار کا گورک دھنداء ہوتا ہے، بجٹ بنانے والے ماہرین اپنے سامنے مستقبل کو رکھتے ہیں یہ دوسری بات ہے کہ اس پر بجٹ کے اعداد و شمار کے مطابق حقیقی طور پر کتنا عمل درآمد ہوتاہے بجٹ میں دئے گئے احداف حاصل کرنے پر ہی معیشت بہتری کی طرف جاتی ہے، بجٹ کے اعداد و شمار سمجھنا آسان کام نہیں، مجھے یاد ہے جب سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک مرتبہ بہ حیثیت وزیر اعظم جدہ آئے تھے ان سے انکی ذاتی رہائش گاہ پر پاکستان جرنلسٹس فورم کے اراکین کی ملاقات ہوئی تھی اس وقت وزیرخزانہ اسوقت کے نائب وزیر اعظم اسحق ڈار تھے، دیگر امور پر بات چیت کے علاوہ میرا ان سے سوال تھا کہ ہر حکومت جانے والے حکومت کے متعلق ایک ہی بیان دیتی ہے کہ ہمیں خزانہ خالی ملا، ہم معیشت کو درستگی کی طرف لے جارہے ہیں تو میاں صاحب اب آپکا بجٹ کیسا ہوگا ؟؟اسحاق ڈار کہیں جارہے تھے میاں صاحب نے انہیں بلاکر اپنے پاس بٹھا لیا اور کہاکہ ”ڈار صاحب توسی سمجھاؤ انا نوں بجٹ دے متعلق “ اسحق ڈار صاحب نے اپنی مہارت سے کہنا شروع کیا ”اسوقت DGP, اتنی ہے، اتنے ٹریلین وہا ں سے آئینگے اتنے فیصد ٹیکس وصول ہوگا، جب انکے اعداد و شمار کی تفاصیل دس منٹ تک جاری رہیں تو میں نے معذرت کرتے ہوئے انہیں روکا اور میاں صاحب سے کہاکہ میاں صاحب میری مراد عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کیا ہوگا سے ہے ؟؟ڈار صاحب کے اعداد و شمار ہمارے سمجھ میں نہیں آرہے، آپ نے ڈار صاحب کے ذریعے ہمیں ”ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا ، میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جو اپکا بنیادی سوال عوام کی فلاح و بہبود کا تو اطمینان رکھیں مسلم لیگ کی حکومت کے سامنے پہلے عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ مسلم لیگ کی آج کی حکومت یا اتحادیوں کی آج کی حکومت کا 2025-26 کا بجٹ ایک محتاط انداز فکر کی عکاسی کرتا ہے جس کا مقصد بیرونی دباؤ اور اندرونی چیلنجوں کے درمیان پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔ اگرچہ یہ ترقی اور مالیاتی نظم و ضبط کے طرف اشارہ کرتا ہے اس پر عمل درآمد کیلئے اقدامات کی تاثیر کا انحصار ان کے نفاذ اور معیشت میں ساختی مسائل کو حل کرنے کی حکومت کی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔پاکستان کا وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2025-26، جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور اقتصادی چیلنجوں کے درمیان پیش کیا گیا، جس میں مالی استحکام، ٹیکس اصلاحات، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے والی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ بجٹ کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار موثر نفاذ اور ساختی مسائل کو حل کرنے پر ہوگا۔مگر بجٹ سے قبل ہی عوام میں شکوک شبہات پیدا کردئے گئے تھے جب اسپیکرقومی اسمبلی، اور سینٹ کے چئیرمین کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کرکے دو لاکھ سے 13لاکھ، وزراء کی تنخواہیں اسی طرح ایک لاکھ سے نو لاکھ، مشیران کی تنخواہیں ایک لاکھ سے چھ لاکھ، اس طرح ان پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کیلئے مستقبل میں آنے والی مہنگائی کا بندوبست کردیا گیا، مزدور کی تنخواہ پر احسان کیا گیا 35ہزار ماہانہ ماشااللہ،زخموں مرہم لگانے کا یہ انداز تھا کہ 500 فیصد تنخواہین اسلئے بڑھائی گئیں کہ 2016 سے انکی تنخواہیں نہیں بڑھیں (واہ) تو مزدور تو مہنگائی کی تپش میں گزشتہ ستر سالوں سے جل رہا ہے، وزیر اعظم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ تو طلب کی ہے مگر روپورٹ تو شائد انہوں نے ہی دینا ہے جنکی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے
قارئین کیلئے اگر ایک نظر بجٹ پر ڈالی جائے تو کل بجٹ کا تخمینہ: PKR 17.6 ٹریلین، پچھلے سال کے مقابلے میں 7% • آمدنی کے اہداف FBR کی جانب سے متوقع ٹیکس وصولی ہے جو PKR 14.3 ٹریلین، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے اور تعمیل کو بڑھانے پر توجہ کی اشد ضرورت ہے قرض کی ادائیگی کا تخمینہ PKR 8.7 ٹریلین، جو کل متوقع آمدنی کا تقریباً 55% ہے۔وطن عزیز زرعی ملک ہے مگرقیام پاکستان سے آج تک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ملک کے ہمدرد بھی جاگیر دار ہی ہیں جو زراعت پر مطلوبہ ٹیکس ہی نہیں دیتے قانون سازی ہوتی ہے ٹیکس وصولی کیلئے زمین کی حد مقرر کی جاتی قانون سازی ہوتی ہے وہاں بھی بااثر جاگیر دارقانون سے کھیل جاتے ہیں وہ اپنی وسیع زمین پر ٹیکس سے بچنے کے طریقے استعمال کرتے ہیں او ر زرعی زمین کو بیٹا، بیٹی، بیویوں، ماں کے نام کردیتے ہیں اور ٹیکس ادا کرنے سے قانون کے مطابق بچ جاتے ہیں اسطرح صرف 0.57% زرعی اراضی اس سائز میں رکھی گئی ہے جسے عام طور پر ٹیکس کے لیے سمجھا جاتا ہے۔بجٹ میں جرات مندانہ ساختی اصلاحات کا فقدان ہے، سود کی ادائیگیوں کے ساتھ آمدنی کا ایک بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ براہ راست یا بالواسطہ زراعت پر منحصر ہے۔ تاہم، زرعی آمدنی پر مؤثر طریقے سے ٹیکس نہ لگانے کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور اس کی جڑیں سیاسی، قانونی اور انتظامی چیلنجوں سے جڑی ہوئی ہیں۔آئین کے مطابق زرعی انکم ٹیکس ایک صوبائی معاملہ ہے، وفاقی نہیں۔پاکستان کے 1973 کے آئین کے مطابق، صرف صوبائی حکومتوں کو زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا اختیار ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) یہ ٹیکس جمع نہیں کر سکتا۔صوبوں کی طرف سے کمزور نفاذہوتا ہے جب کہ چاروں صوبوں میں ایسے قوانین موجود ہیں جو زرعی انکم ٹیکس کی اجازت دیتے ہیں، لیکن عمل درآمد انتہائی ناقص ہے۔عملی طور پر، حاصل ہونے والی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے (کل ٹیکس وصولی کا 1% سے کم) قیام پاکستان سے آج تک زمینداروں کا سیاسی اثر و رسوخ ایک طاقتور جاگیردار طبقہ پاکستان کی سیاست پر حاوی ہے۔ بہت سے زمیندار سیاست دان بھی ہیں یا ان سے قریبی تعلقات ہیں۔یہ بااثر افراد زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کے لیے کسی بھی سنجیدہ کوشش کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، کیونکہ یہ براہ راست ان کی اپنی دولت کو متاثر کرے گا۔وفاقی انکم ٹیکس ادا کرنے سے بچنے کے لیے کچھ کاروباری آمدنی کو زرعی آمدنی کا روپ دیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کرکچھ غیر جانبدار بھی ٹیکس کی خامیوں کی نشاندہی کرر ہے ہیں بہتر ہے انکی رائے کو بھی دیکھا جائے۔ فائلرز، نان فائلرز کا معاملہ بھی اہم ہے اگر کوئی کاروبار شروع کرنا چاہے وہ یقینا فائلر نہیں ہوگا اور جب فائلر نہیں ہوگا تو بجٹ میں اعلان کردہ اصلاحات کے مطابق وہ بنک اکاؤنٹ نہیں کھول سکے گا یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اتحادی جماعت پی پی پی اپنے پر نکال رہی ہے ایک طرف انکے چئیر مین بلاول بھٹو حالیہ جنگی معاملات پر دنیا بھر میں جاکر پاکستان کی نیک نامی کیلئے بہتر انداز میں کام کررہے ہیں اوروہ 2025 کے ذولفقار علی بھٹو نظر آرہے ہیں جبکہ پاکستا ن میں انکی جماعت حکومت کی جڑیں کھوکھلی کرکے بلاول بھٹو کو وزیر بنانے کیلئے محنت کررہے ہیں اس سے بہترہوتا کہ وہ اپنے صوبے میں جاگیر داروں کی بڑی تعداد کو زرعی ٹیکس دینے پر رضامند کریں۔