اتنا ٹیکس کہ جائیداد کی خریداری پر نان فائلر سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے

اسلام آباد۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے نان فائلرز کے لیے جائیداد کی خریداری پر 130 فیصد ٹیکس کی موجودہ حد کو بڑھا کر 500 فیصد کرنے کی تجویز منظور کر لی ہے۔

یہ فیصلہ چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس کے دوران سینیٹر شبلی فراز نے رائے دی کہ ماہانہ چھ سے بارہ لاکھ روپے تنخواہ لینے والے افراد پر ٹیکس عائد نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ موجودہ مہنگائی میں ایک لاکھ روپے کی تنخواہ کی حقیقی قدر محض 42 ہزار کے قریب رہ گئی ہے۔

ایف بی آر کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ نجی کلبز کی آمدنی پر بھی ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔ تاہم، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام پر نظرثانی ہونی چاہیے۔

اس موقع پر چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ یہ کلبز چند سو خوشحال افراد کی تفریح کے مراکز ہیں اور عام آدمی کو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

وزیر مملکت برائے خزانہ، بلال اظہر کیانی نے کہا کہ جب کسی کی آمدن اس کے اخراجات سے تجاوز کر جائے تو اسے ٹیکس کے دائرے میں لانا ناگزیر ہوتا ہے، اور اس مسئلے کا تعلق مراعات یافتہ طبقے سے ہے۔

اجلاس میں بیشتر کمیٹی ارکان نے کلبز کی آمدن پر ٹیکس عائد کرنے کی حمایت کی۔

ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں نان فائلرز کے لیے جائیداد اور گاڑیوں کی خریداری پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے، جس کے تحت نان فائلرز کے لیے جائیداد خریدنے پر پہلے سے موجود 130 فیصد ٹیکس کی شرح تجویز کی گئی ہے۔

سینیٹر محسن عزیز نے تجویز دی کہ یہ حد مزید بڑھائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نان فائلر کے پاس ایک کروڑ روپے موجود ہیں، تو اُسے صرف پانچ کروڑ روپے تک کی پراپرٹی خریدنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

اس پر کمیٹی نے نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی حد کو 130 فیصد سے بڑھا کر 500 فیصد کرنے کی سفارش منظور کر لی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال میں نان فائلرز پر جرمانوں میں اضافہ کیا گیا تھا، اور اب حکومت ان افراد کو باقاعدہ ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔

علاوہ ازیں، کمیٹی نے آن لائن تعلیمی اداروں اور اکیڈمیز پر ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز بھی منظور کر لی۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ کچھ آن لائن اکیڈمیز ہر ماہ دو کروڑ روپے تک آمدنی حاصل کر رہی ہیں، اس لیے اگر کوئی استاد یا ادارہ آن لائن کمائی کر رہا ہے، تو اسے ٹیکس دینا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں