تحریر شاہد محمود
موجودہ دنیا نے امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ کا دور بھی دیکھا ہے جب سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلسٹ قوتوں کے درمیان معاشی برتری کی جنگ جاری تھی اور پھر روس طاقت کے نشے میں چور افغانستان کے اندر ایسا پھنسا کی باہر نکلا تو اس کی معیشت رہی نہ خود روس باقی رہا اور اس کے بطن سے کئی ریاستیں الگ ہونے لگیں اور پھر اگلے تیس سال تک دنیا پر امریکی حکمرانی کا سورج چمکتا رہا لیکن کہتے ہیں کہ طاقتور وہی ہوتا ہے جو انصاف کرے اور اپنی طاقت کو بلاوجہ استعمال نہ کرتا پھرے جبکہ امریکہ کے تیس سال مسلسل اپنے حواریوں کی ناجائز خواہشات کو سپورٹ کرنے اور مسلم دنیا کو دباکر رکھنے میں گزرے ہیں جس کے دوران عراق، شام، لیبیا ، اردن اور مصر میں رجیم کی تبدیلی کے بعد من پسند حکمران مسلط کئے گئے تھے اور پچھلے ایک سال سے اسرائیل کی مدد سے غزہ کو مسمار کرنے میں طاقت صرف کرتا رہا ہے اور کوئی بھی ملک امریکہ اور اس کے حواریوں کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا جس کے نتیجہ میں ایشیاء میں ہندوستان اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل بڑے بدمعاش بن کر سامنے آئے تھے ۔ ان دونوں ممالک نے پچھلی تین دھائیوں میں اپنے ہمسایہ ملکوں پر ایسا خوف طاری کئے رکھا کہ کوئی بھی ان دونوں ملکوں کے سامنے کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا۔ پوری دنیا میں امریکہ کا طوطی بولتا تھا اور امریکہ یا اس کے حواریوں کے سامنے آواز نکالنے پر بھی مکمل تباہی مقدر بن جایا کرتی تھی اور افغانستان میں یہ کھیل بیس سال تک چلتا رہا ہے جہاں پر امریکہ نے اپنے اسلحہ کی کھلے عام نمائش کی تھی۔ پچھلی ایک دہائی سے چین نے معاشی میدان میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور خاموشی سے اپنی معیشت کو مضبوط کرتا ہوا چین جب معاشی قوت بن کر سامنے آیا تو امریکہ کی حاکمیتِ کو خطرات لاحق ہونے لگے اور امریکہ نے چین پر براہ راست تجارتی پابندیاں لگانے کے لئے بڑے ٹیرف نافذ کردئیے اور دنیا یہی سمجھتی رہی کہ اب چین بھی باقی ملکوں کی طرح خاموش رہ کر اپنی قسمت کو کوسنے دیتا رہے گا لیکن حیران کن طور پر چینی صدر نے امریکہ پر جوابی ٹیرف بڑھا دئیے اور امریکہ کو برابر کا جواب دیتے ہوئے تیس سالہ امریکی غرور کو خاک میں ملا دیا اور یہیں سے امریکی خوف کی عمارت میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی تھیں اور اگلے چند ماہ میں پورا امریکی خوف اس وقت منہ کے بل جا گرا جب انڈین حملے کے بعد ٹرمپ کے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود پاکستان نے انڈیا کی بولتی بند کی تھی اور پھر ایران پر اسرائیلی حملہ کے بعد پچھلے کئی حملوں میں خاموشی اختیار کرنے والے ایران نے بھی بھرپور جواب دیتے ہوئے اسرائیل کے شہروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اب جبکہ امریکی صدر دھمکی نما لہجے میں ایران سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہا ہے اور ایران ہے کہ وہ کسی طور پر بھی بدلہ لئے بغیر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کو تیار نہیں ہے اور ایرانی قیادت نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ ہم اسرائیل کو مکمل تباہی کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے تو اس صورت حال میں امریکہ کے پاس چوائس کم ہی بچی ہے اور اب امریکہ ایسی صورتحال میں پھنس گیا ہے کہ اس کے پاس جنگ میں براہ راست کودنے کے کوئی چارہ نہیں بچا ہے اورحالت یہ ہے کہ دنیا کی طاقتور ترین امریکی صدر کی شخصیت کی ثالثی کو لوگ جوتے کی نوک پر رکھ رہے ہیں اور خبر یہ بھی ہے کہ انڈیا نے بھی پاک انڈین مذاکرات میں امریکی صدر کی ثالثی کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور ان پے در پے انکاروں کے دوران امریکہ کو اس وقت اور بھی بڑا دھچکا لگا ہے جب چینی صدر شی جن پنگ نے ایک بڑا بیان داغتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکہ دنیا کا احترام نہیں کرے گا تو اس کا اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور ساتھ ہی مائنس امریکہ کی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا بیان ہے جس نے امریکہ کی پوری صدی کی فوقیت کو اٹھا کر مشرق وسطیٰ کے پانیوں میں غرق کردیا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں دنیا نے امریکی خوف کے بت توڑ پھینکے ہیں اور ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری جس ٹیکنالوجی کو ناقابل تسخیر سمجھتے تھے اس ٹیکنالوجی کا پاکستان کے نوجوان ہیکروں اور ایران کے میزائلوں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اور ان دونوں جنگوں میں نہ فرانس کے رافیل طیارے بچے اور نہ ہی روس کا ایس 100 ڈیفنس سسٹم ٹھہر سکا ہے اور یہاں تک کہ اسرائیلی آئرن ڈوم بھی ریت کی دیوار ثابت ہوا ہے اور اس سارے کھیل کے پیچھے واقفان حال سمجھتے ہیں کہ چینی ٹیکنالوجی نے اپنا کام کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی آشکار ہو گئی ہے کہ خاموشی سے بیٹھا کوئی بھی ملک موجودہ دور میں اپنے دفاع سے غافل نہیں ہے اور اس کی سب سے بڑی مثال ایران ہے جو بیس سال سے امریکی پابندیوں کا شکار رہا ہے اور آج وہ ناصرف اسرائیل کے لئے چیلنج بن چکا ہے بلکہ امریکی ایف 35 جیسے ناقابل تسخیر جہازوں کو بھی گرا رہا ہے۔ بات یہیں تک نہیں رکی ہے بلکہ امریکہ سمیت اس کے حواری تیزی سے تنہائی کا شکار ہورہے ہیں اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ انڈیا کے سارے ہی ہمسایہ ممالک اس سے خائف ہیں جبکہ اسرائیل کے معاملہ میں بھی ترکی، پاکستان ، سعودی عرب، عراق، کویت، روس اور چین نے ایرانی موقف کی حمایت کی ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ کے اندر بھی تیزی سے ریاستوں کے الگ ہونے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے جو کینیڈا تک پھیل چکی ہے اور گریٹر برطانیہ اور روس کی توڑ پھوڑ کے بعد شاید امریکہ بھی تقسیم کے عمل سے گزرتا دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بڑی بڑی حاکمیتوں کو بھی ایک دن زوال پذیر ہونا ہی پڑتا ہے اور اب اگر امریکہ نے عراق کی طرز پر اسرائیلی باتوں میں آکر ایران پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو پھر امریکہ کے لئے اس جنگ سے جان چھڑانا مشکل ہو جائے گی کیونکہ ایشیا میں جو علاقائی بلاک کل بننا تھا وہ آج ہی بنتا دکھائی دے رہا ہے اور اس لڑائی میں ایک طرف روس کو امریکہ سے اپنا پرانا بدلہ چکانا ہے تو دوسری طرف چین کو علاقہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا ہے ۔ ابھی تو ایران نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی پر انحصار کیا ہے لیکن امریکی براہ راست مداخلت پر ایرانی بحری بیڑا بھی حرکت میں آئے گا جو امریکی بیڑا غرق کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے امریکی خوف ختم ہو رہا ہے تو یقیناً اگلے چند سالوں میں امریکہ کو واپس اپنی سرحدوں میں جانا پڑے گا ورنہ یہ جنگ پہلی بار اسرائیل کے بعد امریکی سرزمین میں بھی پہنچ جائے گی اور اگلی لڑائی بحری فوقیت کی ہوگی۔
