فیلڈ مارشل صدر ٹرمپ اہم ملاقات

تحریر انور خان لودھی
دنیا کا طاقتور ترین صدر اہم ترین جغرافیائی حیثیت کے حامل ملک کے سپہ سالار سے اس وقت ملاقات کرے جب مشرقِ وسطیٰ آگ میں جل رہا ہو تو اس بات چیت کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کا کہنا بجا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ’شیڈول سے لمبی ملاقات بات چیت کی گہرائی اور ہم آہنگی کو اجاگر کرتا ہے۔ لنچ پر ملاقات ہوئی، پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ امریکی صدر کے بھی ان کی انتظامیہ کے سینئر ارکان کی کمک حاصل تھی۔ کچھ باتیں اکیلے میں بھی ہوئیں۔ امریکی صدر نے بدھ کے روز آرمی چیف عاصم منیر کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں ظہرانہ دیا جہاں صحافیوں کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ کھانے کے بعد انھوں نے اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل عاصم منیر نے (پاکستان انڈیا) جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور ’میں پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہوں۔ ملاقات کے بعد معمول سے قدرے مطمئن امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انھوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ جنرل عاصم منیر سے ایران کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی ہے اور ’وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ شاید دوسروں سے بہتر۔۔ اور وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بتایا کہ ان کی انڈیا کے وزیراعظم مودی سے بھی کچھ ہفتے قبل ملاقات ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں بڑی جوہری طاقتیں ہیں اور دونوں کے بیچ جوہری جنگ چھڑ سکتی تھی مگر ’دو ذہین لوگوں نے جنگ روکنے کا فیصلہ کیا۔ ( دو ذہین لوگوں سے ان کی مراد جنرل عصم منیر اور مودی ہیں). ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ تجارتی معاہدے پر بات چیت ہو رہی ہے۔ وہ ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ شاید دوسروں سے بہتر۔ اور وہ اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کے اسرائیل سے تعلقات خراب ہیں، وہ دونوں کو جانتے ہیں، درحقیقت شاید ایران کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور انھوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔ تاہم ٹرمپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ جنرل منیر نے ان سے کس بات پر اتفاق کیا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’میں نے انھیں یہاں اس لیے بلایا کیونکہ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا کہ انھوں نے جنگ کی طرف قدم نہیں بڑھایا۔ امریکی صدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میں وزیر اعظم مودی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو چند دن پہلے یہاں سے گئے۔ ہم انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ دونوں بہت ذہین لوگ ہیں اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس جنگ کو آگے نہیں بڑھائیں گے جو ممکنہ طور پر ایٹمی جنگ بن سکتی تھی۔ پاکستان اور انڈیا دونوں بڑی نیوکلیئر طاقتیں ہیں۔ اس لیے میرے لیے آج ان سے (فیلڈ مارشل عاصم منیر) سے ملاقات کرنا باعثِ اعزاز تھا۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بارے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابتدائی طور پر ملاقات ایک گھنٹے کے لیے طے تھی جو دو گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہی۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ گفتگو کی گہرائی اور ہم آہنگی کو اجاگر کرتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور صدر ٹرمپ کے خصووصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ سٹیو وٹکوف بھی شامل تھے جبکہ قومی سلامتی کے مشیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک آرمی چیف کے ہمراہ تھے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس موقع پر آرمی چیف اور امریکی صدر کے درمیان ایران اور اسرائیل کے درمیان موجودہ صورتحال کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور دونوں جانب سے تنازع کے حل کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملاقات کے دوران آرمی چیف نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی میں سہولت کاری کے لیے صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں اور، امریکہ اور پاکستان درمیان انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کو سراہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ملاقات میں تجارت، اقتصادی ترقی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، توانائی، کرپٹو کرنسی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر بھی بات ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ باہمی فائدہ مند تجارتی شراکت داری قائم کرنے میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔ ملاقات کو اسلام آباد میں ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ایران پر اسرائیل کے 13 جون کو ہونے والے حملے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تنازع شدت اختیار کر چکا ہے اور اس وقت یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ آیا امریکہ خود بھی ایران کے خلاف کارروائی کا حصہ بنے گا یا نہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صدر ٹرمپ نے کسی غیر ملکی فوجی سربراہ کو اس نوعیت کی براہِ راست ون آن ون ملاقات کے لیے وائٹ ہاؤس مدعو کیا ہو۔ اس سے قبل 2001 میں جنرل پرویز مشرف نے بطور صدر اور فوجی سربراہ، اس وقت کے امریکی صدر جارج بش سے ملاقات کی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں