(تحریر شبیر حسین لدھڑ)
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ تہذیبیں صرف عمارتوں یا سلطنتوں سے نہیں بنتیں، ان کا اصل جوہر علم، فکر، روحانیت اور ثقافتی وحدت میں ہوتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ اور وسط ایشیا کے وہ شہر جو کبھی انسانی عظمت اور تہذیبی بلندی کی علامت تھے، آج بربادی کی داستان بن چکے ہیں۔ دمشق، بغداد، کابل، بیت المقدس، بیروت، طرابلس، خرطوم، صنعاء اور اب سوالیہ نشان تہران پر آ چکا ہے۔ ان شہروں کی تباہی صرف جنگوں یا انقلابوں کی کہانی نہیں، بلکہ ایک گہری منصوبہ بندی، بیرونی مفادات، اور اندرونی خیانتوں کی تاریخ ہے۔
بغداد، جہاں کبھی حکمت و فلسفہ کی شمعیں روشن تھیں، مغربی سامراج نے اسے جدید اسلحے کے تجربہ گاہ میں بدل دیا۔ 2003ء کا امریکی حملہ نہ صرف سیاسی قبضہ تھا بلکہ تہذیبی قتل تھا۔ تیل کے ذخائر کے پیچھے چلنے والی جنگوں نے ایک قوم کو فرقہ واریت، داخلی خانہ جنگی، اور بداعتمادی کی کھائی میں دھکیل دیا۔ بغداد آج اٹھ رہا ہے مگر بغداد کی روح کو دفن کیا گیا، مغرب نے یہاں بھی منافقت کی
“مشرق کا پیرس” کہلانے والا بیروت، جہاں کبھی ادب، موسیقی، صحافت، اور تعلیم نے عروج پایا، آج مختلف عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگوں کا اکھاڑا بن چکا ہے۔ فرانس، اسرائیل، امریکہ اور پھر ایران و سعودیہ کی اپنی چپقلش سب بیروت میں اپنے اپنے گروہوں کو سہارا دے کر پورے لبنان کو خانہ جنگی کے دہانے پر لے گئے۔ آج بیروت افلاس و اداسی کا مرکز ہے
شام میں انقلاب کا نعرہ لگا، مگر جلد ہی وہ انقلاب بین الاقوامی اسٹیج پر “پراکسی وار” بن گیا۔ امریکہ، روس، ایران، ترکی، اسرائیل سب نے شام کے زمینی ٹکڑوں پر اپنا پرچم لہرایا۔ مگر اصل تباہی اندر سے آئی: جب قومیں شخصیات کے سحر، فرقوں کے تعصب، اور اقتدار کی حرص میں آنکھیں بند کر لیں، تو دشمن کے لیے دروازے خودبخود کھل جاتے ہیں۔ شام دنیا کی قدیم ترین تہزیب کا مرکز آج اداسیوں، نوحوں اور بھوک کی شام میں ڈھل چکا ہے۔ صبح کا سورج بہت دور ہے
بیروت کے سائے میں طرابلس وہ شہر ہے جس نے تاریخ میں صوفی فکر، فقہ، اور فکری مدارس کو جنم دیا۔ مگر آج یہ شہر بھی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے بیچ کھنچ گیا ہے۔ بیرونی طاقتیں یہاں گروہوں کو اسلحہ، فنڈنگ اور ابلاغی سہولتیں دے کر ایک دوسرے سے لڑا رہی ہیں، اور اندرونی سیاسی قیادت ان کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔
سوڈان اور یمن، دو الگ قومیں، مگر ایک جیسا المیہ۔ خرطوم میں عوام نے آمریت کے خلاف بغاوت کی، مگر اب وہی عوام فوج، ملیشیا اور قبائلی سرداروں کی غلامی میں واپس جا چکی ہے۔ خرطوم کو بیرونی مداخلت اور اندرونی لالچ نے ملبوں کا ڈھیر بنادیا ہے،
صنعاء، جو عرب تہذیب کا فخر تھا، آج دو بھائیوں کی پراکسی جنگ میں تہس نہس ہو چکا ہے۔ رہتی کسر اسرائل نے پوری کردی اور دنیا کا منافق سپر پاور بھی اس میں شامل ہے۔ اور یہ سب کچھ داخلی قیادت کی خودغرضی، نظریاتی کٹھ پتلی پن، اور عوامی شعور کی ناپختگی سے ممکن ہوا۔
ایران کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شامل ہے۔ فارسی ادب، صوفی فلسفہ، اور انقلابی شعور کی زمین اب بیرونی پابندیوں، اندرونی جبریت، اور عوامی اضطراب کا شکار ہے۔ تہران کا وجود خطرے سے دوچار ہے۔ تہران لڑ رہا ہے مگر تھک گ
اقبال نے کہا تھا،
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہند کے مسلمانو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
آج صرف ہند نہیں، پورا مشرق اسلامی تہذیب کا وجود خطرے میں ہے۔ جب تہذیبیں اندھا دھند طاقت کی پیروی میں علم، اخلاق، وحدت، اور خودی کو چھوڑ دیتی ہیں، تو پھر وہ چاہے بغداد ہو یا بیروت، انجام ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
یہ وقت ماتم کا نہیں، بیداری کا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ “اب کس کی باری ہے؟” بلکہ سوال یہ ہے کہ “ہم نے اپنی باری آنے سے پہلے کیا کیا؟” تہذیبیں صرف حملہ آوروں سے نہیں گرتیں، بلکہ جب اندر کے دربان ہی غدار ہوں تو دیواریں خود گرنے لگتی ہیں۔
ہمیں ان شہروں کو صرف تاریخ کے صفحات میں زندہ رکھنے کی نہیں، بلکہ ان کے شعور، علم، اور روح کو دوبارہ جگانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تہران کے بعد شاید ہماری اپنی باری بھی قریب ہے اور پھر کوئی پوچھنے والا بھی باقی نہ رہے گا۔