ہاکی کے زوال کی کہانی

(تحریر:موسیٰ وڑائچ)

ملائیشیا میں جاری ایف آئی ایچ نیشنز کپ ہاکی ٹورنامنٹ کا اختتام ہو گیا، پاکستان ٹیم نے فائنل کے لئے کوالیفائی کیا لیکن نیوزی لینڈ کےخلاف فائنل میں کامیابی حاصل نہ کر سکی، فائنل میں قومی ہاکی ٹیم 6-2سے ہار گئی، پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ صورتحال میں اس ٹیم کا فائنل میں پہنچنا ہی بڑی بات ہے،پاکستان میں ہاکی کے زوال کا قصہ آج کا نہیں یہ دہائیوں پر محیط ہے، پاکستان ہاکی ٹیم نے آخری بار کوئی بڑا ٹائیٹل 1994 کا ورلڈ کپ جیتا تھا جب شہباز سینئیر کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے ہالینڈ کو شکست دی تھی، پاکستان کی وہ لاٹ جب ہاکی سے الگ ہوئی تو ٹیم آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور بڑے ایونٹس میں پاکستان کی پرفارمنس بھی آہستہ آہستہ نیچے آگئی،شہباز سینئیر،شہباز جونئیر،طاہر زمان،نوید عالم مرحوم،محمد عثمان،کامران اشرف،عاطف بشیر،احمد عالم پھر اسکے بعد سہیل عباس،سلمان اکبر ،ریحان بٹ،محمد ثقلین اور شکیل عباسی،محمد عمران،شفقت رسول جیسے کچھ کھلاڑی ایسے تھے جو بہترین کھیل پیش کرتے رہے پر بطور ٹیم پاکستان کوئی بڑا ایونٹ نہ جیت سکا، 90 کی دہائی کے کھلاڑی جب کوچنگ اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کی مینجمینمٹ میں آئے تو پھر ٹھیک تباہی شروع ہوئی، ان سابق اولمپئینز کے آپس میں اختلافات کی وجہ سے قومی کھیل ہاکی آہستہ آہستہ نیچے ہی جاتا گیا اور میڈیا جس کی ذمہ داری ہوتی ہے عوام کو ٹھیک حقائق بتانا وہ بھی آنکھیں بند کر کے اپنی ذمہ داری سے جان چھڑواتا رہا اور دوستیوں کو ترجیح دیتا رہا جس سے معاملات مزید خراب ہوتے گئے، مجھے یاد ہے 2008 اولمپکس سے پہلے میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم فیڈریشن کے صدر اور خالد محمود سیکرٹری تھے، نوید عالم مرحوم ٹیم کے کوچ تھے، طاہر زمان جو ابھی بات کر رہے ہیں کہ پلئیرز ویلفیئر کیلئے 2008 میں ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا جس میں بچوں کو سکول، ٹریننگ کیمپ، کھانا اور ساتھ الاو¿نس بھی دیا جاتا تھا لیکن فیڈریشن میں تبدیلی کے بعد وہ پروگرام بھی بند کر دیا گیا، نوید عالم مرحوم سے جب ان بچوں کے حوالے سے بات ہوتی تھی تو وہ کہتے ہوتے تھے کہ موسٰی بھائی آئندہ کچھ سال میں آپکو پڑھے لکھے ہاکی کھلاڑی ملیں گے، بیجنگ اولمپکس 2008 میں پاکستان ٹیم اچھا پرفارم نہ کر سکی تو یہ فیڈریشن بدل گئی اور وہ پروگرام بھی بند ہو گیا، تب خواجہ آصف کی سفارش پہ آصف باجوہ ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری بنے، اس دور میں فیڈریشن کو فنڈز بھی ٹھیک ٹھاک ملتے رہے لیکن ٹیم کی کاکردگی بہتر نہ ہوئی، اپنے دوستوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رہا،
2010ءمیں حال یہ تھا کہ بھارت میں ہونےوالے ورلڈ کپ میں دس ٹیموں میں پاکستان کی آخری دسویں پوزیشن تھی،پاکستان اس ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ جیسی ٹیموں سے بھی ہارا،لیکن فیڈریشن کے معاملات نہ بدلے،دوستوں کا ایک گروپ جو مسلسل قابض تھا اقتدار پہ وہ چلتا رہا اور ہاکی نیچے جاتی رہی، اس کے بعد پاکستان نے کسی ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی ہی نہیں کیا اور 2012 لندن اولمپکس کے بعد کسی اولمپکس کےلئے بھی کوالیفائی نہیں کیا
آپ اندازہ لگائیں کہ یہ وہی ٹیم پاکستان ہے جس نے چار ورلڈ ہاکی ورلڈ کپ اور تین اولمپکس مقابلے جیتے ہوئے ہیں یہ وہی پاکستان ہاکی ٹیم ہے جو دنیائے ہاکی پہ راج کرتی تھی لیکن جب ہاکی گراس سے ٹرف پہ شفٹ ہوئی تو ہم نے اس پہ پراپر کام ہی نہیں کیا، ویسی ٹریننگ اور سکلز پہ کام نہیں کیا جس کی وجہ سے ہم پیچھے رہتے گئے اور دنیا آگے نکل گئی، قاسم ضیا نے مالی معاملات کے حوالے سے کافی کام کیا،وفاق میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس کی وجہ سے قاسم ضیا کو فیڈرل حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب سندھ کے پی اور بلوچستان سب صوبائی حکومتوں نے سپورٹ کیا لیکن جب کوئی لانگ ٹرم پلان ترتیب نہ دئیے جائیں تو پھر ٹیمیں کہاں بنتی ہیں، ہاکی کو شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پلانز کی ضرورت تھی، میرے ذاتی خیال کے مطابق حکومت پاکستان اور مختلف ڈیپارٹمینٹس نے جب اپنی ٹیمیں ختم کر دیں، کھلاڑیوں کو جب پی آئی اے، نیشنل بینک اور ایسے ہی باقی ڈیپارٹمینٹس نے مستقل نوکریاں دینی بند کر دیں، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ہاکی کی بنیاد پر داخلے ملنا بند ہو گئے تو ہاکی کا زوال شروع ہوا، اس میں حکومتوں کی عدم دلچسپی تھی جس نے قومی کھیل ہاکی کا یہ حال نہ ہوتا
مجھے یقین ہے کہ اگر حکومتی سطح پہ پروفیشنل طریقے سے فیڈریشن میں پروفیشنل لوگوں کو لایا جائے ہاکی پرproperکام کیا جائے تو اب بھی کام ہو سکتا ہے، موجودہ ہاکی ٹیم کے بچے جن کو ٹورنامنٹ ختم ہونے پہ بھی ڈیلی الاو¿نسز نہیں ملے وہ ایسے کیسے کھیل سکتے ہیں، طاہر زمان جیسے پروفیشنل کوچز بہترین کام کر رہے ہیں مگر ان کو جدید ٹریننگ اور جدید تربیتی آلات دینا ہوگا تاکہ وہ کھلاڑیوں کو ماڈرن کوچنگ کروا سکیں،پاکستان ہاکی میں اپنے طور پہ کچھ لوگ جو بہترین کام کر رہے ہیں اور ہاکی کی سچے معنوں میں خدمت کر رہے ہیں وہ لاہور میں توقیر ڈار ہیں جو اپنی اکیڈمی چلا رہے ہیں، بچوں کو کوچنگ کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ٹورز بھی کرواتے ہیں، سرگودھا میں سابق کپتان پاکستان ہاکی ٹیم پیر سلیم عامر بھی اپنی اکیڈمی بہترین طریقے سے چلا رہے ہیں سلیم عامر سابق انٹرنیشنل ہاکی پلیئر ہیں ان سے بات ہوئی تو انکا یہی کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت کی جانب سے ہاکی فیڈریشن کو ٹھیک طریقے سے سپورٹ کیا جائے تو موجودہ ہاکی ٹیم بین الاقوامی ایونٹس میں مزید بہتر پرفارم کر سکتی ہے، لاہور میں سابق انٹرنیشنل ہاکی پلئیر رانا ظہیر مرحوم اپنی اکیڈمی چلاتے رہے ہیں اور بچوں کو بھرپور محنت کرواتے تھے، شیخوپورہ میں سابق اولمپئین نوید عالم کے چھوٹے بھائی مبشر چوہدری بھی لوکل سطح پہ کام کر رہے ہیں جس سے کئی نوجوان کھلاڑیوں کو ہاکی کھیلنے کا موقع مل رہا ہے اگر دیگر کچھ اولمپئینز بھی ہاکی کی ایسی خدمت کریں تو معاملات کافی بہتر ہو جائیں لیکن پھر بات ریسورسز کی آتی ہے جب تک حکومت کی جانب سے اس پر کام نہیں کیا جائے گا کچھ بھی اچھا نہیں ہو سکتا ، پی ایس ایل شروع ہونے سے پہلے ہم سنتے تھے کہ پاکستان سپر ہاکی لیگ شروع ہونے جا رہی ہے جس میں دنیا بھر سے اچھے کھلاڑی آکے کھیلیں گے، تو یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ لیگ ابھی تک کیوں شروع نہیں ہو سکی ، میرا مشورہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ میں جو فرنچائزز کرکٹ بورڈ کےساتھ کام کر رہی ہیں وہی فرنچائزز اگر ہاکی لیگ پہ کام کریں تو دو چار سال میں پاکستان ہاکی لیگ دنیا کی بہترین لیگ بن سکتی ہے، دنیا کا سب سے بڑا ہاکی سٹیڈیم نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور جب بھرا ہوا ہوگا تو ساری دنیا متوجہ ہوگی، وزیر اعظم شہباز شریف،،سی ایم پنجاب مریم نواز اور باقی صوبائی حکومتیں اگر اپنے طور پہ قومی کھیل ہاکی پہ کچھ کام کریں تو زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ پاکستان ہاکی میں بہتری آجائے گی، مگر اس کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے خالی نعروں سے کچھ نہیں ہوگا۔

نوٹ، موسی وڑائچ سینئر سپورٹس جرنلسٹ ہیں گزشتہ دو دہائیوں سے سپورٹس کی دنیا بھر میں کوریج کررہے ہیں، پاکستان میں سپورٹس کا ہر بڑا ایونٹ کور کیا،اب وہ انگلینڈ منتقل ہوگئے ہیں مگر سپورٹس سے لگاﺅ اب بھی قائم ہیں، موسی وڑائچ اب روزنامہ آفاق میں سپورٹس کے حوالے سے کالم لکھا کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں