(تحریر:انجم کاظمی)
کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں کلمہ چوک لاہور میں دو ٹریفک وارڈنز ایک شہری کو دھکم پیل اور میبینہ تشدد کرتے ہوئے زبردستی رکشہ میں ڈال رہے ہیں پیچھے سے ایک خاتون کے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں مگر بے رحم اور بے حس ٹریفک وارڈنز وردی کی طاقت کے نشہ میں چور ہوکر نوجوان کو رکشہ میں ڈال کر لے گئے اور خاتون کو چیختے چلاتے تنہا چھوڑ دیا، پھر وہی ہوا جو 78 برسوں سے پاکستان میں ہوتا آرہا ہے کہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر سی ٹی او (ٹریفک پولیس آفیسر) نے پہلے حسب روایت نوٹس لیا اور پھر دونوں ٹریفک وارڈنز اور شہری کیخلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے حوالات میں بند کرادیا اور میڈیا پر واہ واہ کرالی،پنجاب کے دیگر شہروں کا علم نہیں مگر لاہور میں ٹریفک وارڈنز بپھرے ہوئے بھینسے کی طرح سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے بجائے گھات لگا کر شہریوں کے دھڑا دھڑ چالان کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں، دنیا بھر کے شہروں میں ٹریفک کی روانی کےلئے ٹریفک اہلکار تعینات ہوتے ہیں پاکستان سمیت لاہور میں بھی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹریفک وارڈنز تعینات ہوتے ہیں جو شدید گرمی، سردی اور بارش میں بھی فرائض سرانجام دیتے ہیں اور یقیناً یہ ایک بہت مشکل اور کٹھن کام ہے اور اس کام کو دیانتداری سے سرانجام دینے والوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ہمارے معاشرے اور سرکاری اداروں میں چند کالی بھیڑیں ہیں جن کی وجہ سے ادارہے یا معاشرے بدنام ہوتے ہیں، یہ جاہل افراد ادارے اور معاشرے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، کلمہ چوک میں ہونیوالے واقعہ میں بھی یہی کچھ ہوا، خبر کے مطابق شہری ون وے کی خلاف ورزی کر رہا تھا اور ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں تھا، ٹریفک وارڈنز نے روکا تو ان سے بدتمیزی شروع کردی، ہمارے اداروں کا مسئلہ یہ ہے جب کسی کو تننے کا پروگرام ہو تو ڈھیر سارے الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں جس طرح آج کل پی ٹی آئی کے کارکنوں کیساتھ ہورہا ہے تاکہ عوام سمجھے بندہ واقعی قصور وار ہے، کلمہ چوک کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے جس نے بھی اس کو ڈیزائن کیا ہے وہ انتہائی جاہل اور نالائق انجینئر ہے، مثلاً گارڈن ٹاﺅن، فیصل ٹاﺅن، پنجاب یونیورسٹی اور علامہ اقبال ٹاﺅن سے آنیوالی ٹریفک کو کلمہ چوک انڈر پاس سے اوپر سے سیدھا جانے کیلئے راستہ ہی نہیں دیا گیا، حد تو یہ ہے کہ چند دنوں سے ان علاقوں سے آنیوالی ٹریفک کو دائیں جانب چونگی امر سدھو سے جانے والا راستہ بھی بند کردیا گیا ہے، اب اس ٹریفک کو بائیں مڑ کر اچھرہ نہر کے پل سے گھوم کر چونگی کیطرف جانا پڑتا ہے لیکن موٹر سائیل سواروں نے سیمنٹ کے بلاک کھسا کر راستہ بنا لیا ہے، ان علاقوں کی ٹریفک نے اگر کلمہ چوک پار کرکے نیشنل پارک کیساتھ قائم دفاتر، سینٹ میری کالونی یا زیرو پوائنٹ تک جانا ہو تو ان کے راستہ ہی کوئی نہیں، ان کو مجبوراً لمبا چکر کاٹ کر نہر سے ہوکر اس طرف جانا پڑتا ہے جس میں کم از کم بیس سے پچیس منٹ لگتے ہیں جبکہ یہ راستہ بشمکل ایک منٹ ہے، ممکن ہے مذکورہ موٹر سائیل سوار نے جلدی میں یہ راستہ لیا ہو اور آگے سے ٹریفک وارڈن ٹکر گئے، اکثر ٹریفک وارڈنز بات ہی بدتمیزی سے شروع کرتے ہیں جیسے کسی کن ٹٹے کے کارندے ہوں، اہم مسئلہ یہ ہے ٹریفک کی روانی کیلئے یہ کوئی حل نہیں کہ راستے بند کردو، عوام جائے بھاڑ میں
ٹریفک وارڈنز کی شنہشاہی دیکھنا ہو تو شوکت علی روڈ پر کچھ دیر کیلئے کھڑے ہوجائیں تو وارڈنز کے کارنامے دیکھیں، ماشاءاللہ شوکت علی روڈ کو جس انجیئر نے سگنل فری بنایا ہے اس کی ڈگری چیک کرنی چاہئے،جوہر شادی ہال کے سامنے تین طرف سے آنیوالی ٹریفک اکٹھی کردی جس کی وجہ سے ہمیشہ وہاں ٹریفک جام رہتی ہے، جب یہ سڑک بنی تو بدترین ٹریفک جام رہنے لگی جس کو دو بار توڑ کر دوبارہ بنایا گیا اور یہ کام نگران وزیراعلی محسن نقوی کے دور میں ہوا جس کو ہر کام جلدی میں مکمل کرنے کی لت لگی ہوئی تھی، اس مقام پر اکبر چوک، بی او آر سوسائٹی اور فیصل ٹاﺅن سے یو ٹرن لیکر نہر کی جانب والی ٹریک ایک ہی مقام پر اکٹھی کردی گئی ہے پھر جناح ہسپتال کے تین گیٹ اسی سڑک پر کھلتے ہیں اور یہاں ہر وقت وارڈن تعینات ہوتے ہیں مگر بدترین ٹریفک جام میں بھی وہ غریب موٹر سائیکل سواروں کے چالان کرنے میں مصروف ہوں گے، ایک اور دلچسپ بات اسی مقام پر دیکھنے کو ملتی ہے، جناح ہسپتال چوک میں گرین بیلٹ پر کرسیاں لگا کر اپنی ہی عدالت لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور نہر سے آنیوالے مزداٹرک، لوڈر رکشے اور پک اپس کے چالان کرنے میں مصروف ہوتے ہیں، ان گاڑیوں کو سڑک پر کافی دیر تک کھڑا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے اور ٹریفک جام ہوجاتی ہے مگر مجال ہے ان وارڈنز کو اس کی کوئی پرواہ ہو، حالانکہ اس ڈیجیٹل دور میں گاڑیوں کو روکنے اور ڈرائیور سےگتھم گتھا ہونے اور سڑکوں پر تماشا لگانے کی بجائے ای چالان کے ذریعے کرنے چاہیے اور جو جرمانہ ادا نہ کریں ان کے شناختی کارڈ کو بلاک کیا جائے یا آن لائن ان کے اکاؤنٹس سے وصول کرنے کا نظام بنانا چاہیے۔
مشرف دور میں چودھری پرویز الہی نے اپنی وزارت اعلی میں ٹریفک وارڈنز کا نظام لاگو کیا تھا، نجانے ان کا مائنڈ سیٹ اسی وقت سے پاکستان کی ایسٹیبلشمنٹ کی طرح بنا دیا گیا کہ سڑکوں پر چلنے پھرنے والے عوام بلڈی سویلین ہیں اس لئے ان سے تمیز سے بات ہی نہیں کرنی، اس دور میں ٹریفک وارڈنز کو پسٹل بھی دیئے تھے ،تب بھی چند سر پھرے وارڈنز نے وہ پسٹل مجرموں کو پکڑنے کیلئے استعمال کرنے کے بجائے عوام پر ہی گولیاں برسادیں جس کے بعد ان سے پسٹل واپس لے لئے گئے، اب چند ماہ قبل وارڈنز کو ہتھکڑیاں لگانے کا اختیار بھی دیدیا گیا جو شاید واپس لے لیا گیا ہے، گزشتہ برس واپڈا چوک میں ایک وارڈن نے میرے سامنے ایک رہڑھی والے کو سڑک کے قریب کھڑنے ہونے پر اس کی تکڑی (ترازو) اٹھا کر مار دیا وہ محنت کش بھاگ نکلا اور بچ گیا، میں نے وارڈن سے پوچھا یہ کیا حرکت کی ہے، تم یونیفارم میں ہو تو اس نے کہا کہ روز سڑک پر کھڑا ہوجاتا ہے اور مانتا ہی نہی، تو میں نے جواب دیا کہ وہ تو ان پڑھ اور جاہل ہے، تم یونیفارم میں ہو اور شاید کالج، یونیورسٹی میں بھی پڑھے ہو، مگر تم میں اور رہڑھی والے میں کوئی فرق نہیں رہا، اس بدتمیزی کا کوئی جواز نہیں تم قانونی کارروائی کرو
اسی طرح چند برس قبل شام کو اللہ ہو چوک سے گزر رہا تھا، پانچ، چھ وارڈنز نے مزدا ٹرک والوں کو روکا ہوا تھا، میرے سامنے ایک ڈرائیور ٹرک سے اتر کر آیا تو وارڈن نے کوئی بات کئے بغیر اس کو تین چار تھپڑ مار دیئے، یہ دیکھ کر میں نے گاڑی روک لی اور ان وارڈنز کے پاس گیا اور پوچھا کہ اس کا قصور کیا ہے اس کو تھپڑ کیوں مارے ہیں جس پر وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا، میں نے پوچھا کونسا قانون ہے کہ ایک شخص محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا رزق کما رہا ہے اور تم اس کو تھپڑ مار رہے ہو، کون سے قانون نے تمہیں اجازت دی ہے اور اگر ایسا کوئی بیہودہ قانون ہے بھی توتم پڑھے لکھے ہو کچھ شرم کرلو، میری انگریزی میں گفتگو سن کر دوسرے وارڈنز نے مجھ سے معذرت کی ، یہ چند واقعات ہیں جو میرا ذاتی مشاہدہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکوں پر بڑے لوگوں کی بگڑی اولادیں اور اکڑ خان نوجوان پھرتے ہیں مگر ایک قانونی ادارے کا ان جاہلوں سے اس طرح کا برتاﺅ کسی طرح مناسب نہیں ہے، اس سے محکمے کی بدنامی ہوتی ہے کیونکہ پاکستان کے کسی بھی ادارے نے عوام کے سامنے اپنا سافٹ امیج نہیں بنایا،اس طرح کی ویڈیوز دیکھ کر عوام کی رائے میں بدتمیز اور بدلحاظ نوجوانوں کے حق میں ہوجاتی ہے، سی ٹی او،سی سی پی او اور آئی جی پنجاب کو اس اہم معاملے پر توجہ دینی چاہئے، جو وارڈنز اکڑ خان ہیں ان کو دفاتر میں بٹھائیں اور ان کا نفسیاتی علاج کرائیں،ان کی جگہ سلجھے اور تہذیب یافتہ وارڈنز کو فیلڈ میں تعینات کریں، اور موسم کی شدت کو مد نظر رکھ کر ان کے ڈیوٹی آرز کو بھی کم کیا جانا چاہیے۔ بہت سے ایسے وارڈنز بھی ہیں جو کسی بائیکر یا کار والے کو روکتے ہیں تو پہلے ہاتھ بڑھا کر سلام کرتے ہیں اور اس کی قانونی خلاف ورزی کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں جس پر وہ معذرت کرتا ہے، کئی بار دیکھا ہے کہ سلجھے ہوئے وارڈنز سے اگر اپنی غلطی کی معافی مانگ لیں تو وہ وارننگ دیکر چھوڑ بھی دیتے ہیں کہ آئندہ احتیاز کریں، اس لئے بگڑی اولادیں وارڈنز سے جھگڑنے کے بجانے ان کا بھی خیال کریں کہ وہ اپنی ڈیوٹی کررہے ہیں۔