پیرس۔فرانس کی قومی بلڈ سپلائی ایجنسی نے ایک اہم انکشاف کیا ہے کہ کیریبین کے جزیرے گواڈیلوپ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون میں خون کی ایک بالکل نئی اور انتہائی نایاب قسم شناخت کی گئی ہے، جس کا نام ”گواڈا نیگیٹو“ (Gwada Negative) رکھا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ دنیا میں اس مخصوص خون کی اب تک کی واحد معلوم مثال ہے۔
فرانسیسی ادارے “ای ایف ایس” (EFS) نے جمعے کو جاری کیے گئے اپنے اعلامیے میں بتایا کہ: “ای ایف ایس نے دنیا کا 48 واں بلڈ گروپ سسٹم دریافت کر لیا ہے!”
یہ اعلان ایک طویل سائنسی تحقیق کے بعد سامنے آیا۔ اس تحقیق کا آغاز 2011 میں اُس وقت ہوا جب ایک خاتون، جو سرجری سے پہلے معمول کی طبی جانچ کرا رہی تھیں، ان کے خون میں ایک “غیرمعمولی اینٹی باڈی” دریافت ہوئی۔ تاہم اس وقت مزید تحقیق ممکن نہ ہو سکی کیونکہ ضروری سائنسی وسائل دستیاب نہ تھے۔
ڈی این اے تحقیق نے پہچان ممکن بنائی
ای ایف ایس کے ماہر تھیری پیراڈ کے مطابق، 2019 میں جب جدید ڈی این اے ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوئی تو اس مریضہ کے خون کے نمونے کا تجزیہ مکمل طور پر ممکن ہو پایا، جس سے ایک منفرد جینیاتی تبدیلی کا پتہ چلا۔
تھیری پیراڈ نے کہا، “یہ خاتون فی الحال دنیا میں واحد شخص ہیں جن کے خون کی یہ قسم پائی گئی ہے۔ وہ خود ہی اپنے خون کے لیے ممکنہ عطیہ دہندہ بھی ہیں۔”
”گواڈا نیگیٹو“ — ایک منفرد ناماس خون کے نئے گروپ کا نام ”گواڈا نیگیٹو“ رکھا گیا، جو اس خاتون کے آبائی خطے، جزیرہ گواڈیلوپ، کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نام سادہ، پرکشش اور بین الاقوامی طور پر موزوں ہے۔
یہ خون کی قسم دراصل جینیاتی طور پر مریضہ کے والدین سے منتقل ہوئی، جن دونوں میں یہ مخصوص جینیاتی تبدیلی موجود تھی۔
بین الاقوامی سطح پر منظوری ای ایف ایس کے مطابق، اس دریافت کو جون 2025 میں میلان، اٹلی میں ہونے والی انٹرنیشنل سوسائٹی آف بلڈ ٹرانسفیوژن (ISBT) کے اجلاس میں باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ اس سے پہلے دنیا میں صرف 47 بلڈ گروپ سسٹمز کو تسلیم کیا گیا تھا۔
طب میں نئی راہیں ای ایف ایس نے مزید کہا کہ نئے بلڈ گروپس کی شناخت سے نایاب خون رکھنے والے مریضوں کے علاج میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ اب سائنس دان ایسے دیگر افراد کی تلاش میں ہیں جو اس منفرد خون کے گروپ کے حامل ہوں تاکہ بلڈ ٹرانسفیوژن کے نظام کو مزید مضبوط اور موثر بنایا جا سکے۔
یہ دریافت نہ صرف طبی سائنس کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے بلکہ مستقبل میں ان مریضوں کے لیے نئی امید بھی پیدا کرتی ہے جن کا خون روایتی گروپس سے میل نہیں کھاتا۔