دنیا کے صرف دو مقامات جو نیوکلئیر جنگ میں محفوظ رہیں گے

لندن۔دنیا اس وقت ایک نہایت نازک اور خطرناک موڑ پر کھڑی ہے، جہاں ایٹمی جنگ کا امکان حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر تیسری عالمی جنگ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ لڑی گئی تو یہ انسانیت کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر، عالمی تباہی کی صورت میں صرف دو ممالک — آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ — ایسے سمجھے جا رہے ہیں جو اس بحران سے نسبتا محفوظ رہیں گے۔

یہ انکشاف معروف محققہ اینی جیکبسن کی تازہ ترین کتاب “Nuclear War: A Scenario” میں کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے ایٹمی جنگ کی صورت میں دنیا کے ممکنہ انجام کو نہایت تفصیل اور ہوشربا انداز میں بیان کیا ہے۔

ایٹمی جنگ: شمالی نصف کرہ سب سے زیادہ متاثر
جیکبسن کے مطابق، زمین کا شمالی حصہ — جہاں دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور طاقتور ممالک واقع ہیں — ایٹمی حملوں اور ان کے بعد آنے والی مہلک تابکاری کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ زمین کا درجہ حرارت خطرناک حد تک گر جائے گا، آسمان سورج کی روشنی سے محروم ہو جائے گا، اور اوزون کی تہہ تباہ ہو جانے سے الٹرا وائلٹ شعاعیں انسانوں اور جانوروں کے لیے زہر بن جائیں گی۔

خوراک کا بحران اور عالمی قحط
ایک ایٹمی جنگ صرف فوری تباہی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ طویل مدتی تباہ کاریوں کا باعث بنے گی۔ امریکی اور یوکرینی زرعی علاقے شدید سرد موسم کی وجہ سے برف میں دفن ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں فصلیں اگانا ناممکن ہو جائے گا۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس صورتحال میں عالمی سطح پر خوراک کی قلت پیدا ہوگی، جو ایک بدترین قحط کو جنم دے گی۔

پروفیسر اوون ٹون کی تحقیق کے مطابق، اگر عالمی سطح پر ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتیجے میں پانچ ارب سے زائد افراد بھوک، بیماریاں اور ماحولیاتی تباہی کے باعث ہلاک ہو سکتے ہیں، جبکہ بچ جانے والے لوگ خوراک، پانی اور تحفظ کی تلاش میں زیر زمین پناہ گاہوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیوں محفوظ ہیں؟
ماہرین کے مطابق جنوبی نصف کرہ، خصوصاً آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، تابکاری کے اثرات سے نسبتاً محفوظ رہیں گے۔ ان ممالک کی جغرافیائی تنہائی، کم آبادی، اور زرخیز زمین انہیں خوراک پیدا کرنے کے قابل رکھے گی، جو کسی بھی بحران میں سب سے قیمتی اثاثہ ہو گا۔

عالمی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ
یہ رپورٹ نہ صرف ایک سائنسی و تحقیقاتی جائزہ ہے بلکہ ایک سنگین انتباہ بھی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا — صرف تباہی باقی رہ جاتی ہے۔ عالمی برادری کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ امن اور بقاء کو ترجیح دے گی یا خود کو ایک ناقابلِ تلافی تباہی کی طرف دھکیلے گی۔

وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا پائیدار امن، جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور انسانی تحفظ کو قومی مفادات سے بلند تر سمجھے — ورنہ کل صرف خاموشی بچے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں