تل ابیب ۔اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور اسرائیلی افواج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر کے درمیان غزہ سے متعلق آئندہ کی عسکری حکمت عملی پر ہونے والے ایک بند دروازہ اجلاس میں شدید اختلافات اور تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے چینل 12 کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ رات اعلیٰ وزرا اور سیکیورٹی حکام کے ساتھ ایک خفیہ اجلاس کے دوران نیتن یاہو نے آرمی چیف کو ہدایت دی کہ وہ جنوبی غزہ کے بیشتر فلسطینی شہریوں کی جبری منتقلی کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کریں۔
اس پر جنرل ایال زامیر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا: “کیا آپ وہاں فوجی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں؟ دو ملین افراد پر حکمرانی کون کرے گا؟”
جواب میں نیتن یاہو نے غصے میں بلند آواز میں کہا: “ہماری فوج اور اسرائیلی ریاست۔”
وزیر اعظم نیتن یاہو نے مزید وضاحت کی کہ وہ غزہ میں فوجی حکومت کے قیام کے خواہاں نہیں، لیکن وہ حماس کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ ان کے بقول، وہ اس سلسلے میں کوئی نرمی دکھانے کے لیے تیار نہیں۔
اجلاس کے دوران نیتن یاہو کا مؤقف تھا کہ اگر فلسطینیوں کو جنوبی غزہ کی طرف نہیں ہٹایا جاتا تو پھر اسرائیل کو مکمل طور پر غزہ پر قبضہ کرنا پڑے گا، جس میں وہ علاقے بھی شامل ہوں گے جہاں اب تک یرغمالیوں کی سلامتی کے باعث کوئی فوجی کارروائی نہیں کی گئی۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر انخلا کی کوئی ترتیب نہ دی گئی تو مکمل غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی مجبوری پیدا ہو جائے گی، جو ممکنہ طور پر یرغمالیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالے گا، اور وہ اس خطرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اس کے جواب میں آرمی چیف ایال زامیر نے خبردار کیا کہ اس معاملے پر مزید غور کی ضرورت ہے کیونکہ تاحال کسی حتمی فیصلے پر اتفاق نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم غصے اور بھوک سے بے حال عوام پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے تو وہ قابو سے باہر ہو سکتے ہیں اور اسرائیلی فوج کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں۔
باوجود اختلافِ رائے کے، نیتن یاہو نے آرمی چیف کے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ جنوبی غزہ سے انخلا کا منصوبہ لازمی تیار کیا جائے، اور ان کی امریکا سے واپسی تک یہ منصوبہ ان کے سامنے پیش کیا جائے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی بعض اسرائیلی وزرا نے الزام لگایا تھا کہ آرمی چیف حکومت کو غزہ میں پسپائی اختیار کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں، جو کہ ان کے بقول ناقابل قبول اور ناقابلِ عمل ہے۔