اقوام متحدہ کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیزے نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تمام مالیاتی اور تجارتی روابط کو ختم کرے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق انہوں نے یہ بیان جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
اس موقع پر فرانسسکا البانیزے نے ایک تفصیلی رپورٹ بعنوان “قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک” بھی پیش کی، جس میں اُن 60 سے زائد کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اسرائیل کے جابرانہ اقدامات میں شریک ہیں یا ان کی حمایت کر رہی ہیں۔
فرانسسکا البانیزے کا کہنا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں حالات نہایت سنگین اور ہولناک ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول، اسرائیل اس دور کی سب سے سفاک نسل کشی میں ملوث ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینی سرزمین پر قبضہ، یہودی بستیاں بسانا، نگرانی کا نظام قائم کرنا، قتل و غارت گری اور جبری نقل مکانی جیسے اقدامات میں متعدد نجی کمپنیاں شامل ہیں۔ ان میں اسلحہ بنانے والی فرمیں، ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے ادارے، بھاری مشینری تیار کرنے والے کارخانے اور مالیاتی ادارے شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عالمی قیادت کی بے حسی کے باعث کئی تجارتی ادارے اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات، نسلی امتیاز اور اب کھلی نسل کشی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور منافع کما رہے ہیں۔
فرانسسکا البانیزے نے زور دے کر کہا کہ تمام ممالک اور نجی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس ظالمانہ اقتصادی ڈھانچے سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کریں۔ ان کے مطابق اگر بین الاقوامی برادری سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو یہ کمپنیاں کب کا اسرائیلی معیشت سے الگ ہو چکی ہوتیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جاری جنگ کے دوران اسرائیلی اسٹاک مارکیٹ میں 200 فیصد تک کا اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں 220 ارب ڈالر سے زائد کا مالی فائدہ حاصل کیا گیا۔ اس کے برعکس فلسطینی عوام پر بربادی، قتل و جبری انخلا مسلط کیا گیا۔
فرانسسکا البانیزے نے کہا کہ ایک قوم کو دولت سے نوازا جا رہا ہے، جبکہ دوسری کو مٹایا جا رہا ہے۔ ان کے بقول، کچھ طاقتوں کے نزدیک نسل کشی ایک نفع بخش کاروبار بن چکی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیلی معیشت میں دفاعی صنعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور بار بار کی جارحانہ کارروائیاں اسرائیلی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے تجربات کا ذریعہ بن گئی ہیں۔
فرانسسکا البانیزے نے مطالبہ کیا کہ نجی شعبہ بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ ہو، اور ایسے تمام اداروں کو قانونی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔