اسلام آباد ۔پاکستان کی مسلح افواج نے کہا ہے کہ جو عہد قوم سے کیا تھا، اُسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورا کر دکھایاہے۔افواج پاکستان کا ساتھ دینے پر تمام سیاسی جماعتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں،سیز فائر کی درخواست پاکستان نے نہیں بلکہ یہ جنگ بندی بھارت کی خواہش پر ہوئی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نیوی اور ایئر فورس کے اعلیٰ حکام کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان نے بھارت کے اندر 26 مختلف اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا، جن میں سورت گڑھ، سرسہ، آدم پور، اونتی پورہ، ادھم پور اور پٹھان کوٹ شامل تھے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو مقامات پر بھارت کے جدید ترین اور سب سے مضبوط دفاعی نظام ایس 400 کو پاک فضائیہ نے مؤثر کارروائی میں تباہ کر دیا۔ کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر وہ مقامات نشانے پر رکھے گئے جہاں سے بے گناہ شہریوں پر حملے کیے جا رہے تھے۔ پاکستان نے کامیابی سے اڑی نیٹ ورک اسٹیشن اور پونچھ میں موجود راڈار سسٹم کو بھی تباہ کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، بھارتی بزدلانہ حملوں کے جواب میں پاک افواج نے “بنیان المرصوص” آپریشن کا آغاز کیا، جو 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات کو کیا گیا۔ ان حملوں میں معصوم بچے اور خواتین شہید ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارتی جارحیت اور بے گناہ افراد کی شہادت کا بدلہ لینے اور انصاف فراہم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، اور اللہ کے فضل سے یہ وعدہ پورا کیا گیا۔ ہم ربِ کریم کے شکر گزار ہیں، جس کی مدد و نصرت ہمارے ساتھ رہی، اور ایمان والوں پر یہ فرض ہے کہ وہ ظلم کا جواب دیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور شکر کے سجدے میں جھک گئے ہیں، جس نے ہمیں عزم کو حتمی کارروائی میں بدلنے کی ہمت عطا کی۔ ہمارے دل شہداء کے لواحقین کے ساتھ ہیں، اور ہم زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم اپنی مسلح افواج کے تمام افسران، سپاہیوں، ایئرمینز اور سیلرز کے ممنون ہیں جنہوں نے غیرمعمولی دلیری اور پیشہ ورانہ مہارت سے میدان میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی قوم کے نوجوانوں کے جذبے، حوصلے اور بے پناہ حمایت پر ہم تہِ دل سے شکر گزار ہیں، جنہوں نے آزمائش کی گھڑی میں اپنی افواج کا حوصلہ بڑھایا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ ہم ان نوجوانوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں جو سائبر محاذ پر فرنٹ لائن کے سپاہی بنے۔ ہم پاکستان کے باشعور اور بہادر میڈیا کے بھی ممنون ہیں، جنہوں نے بھارتی پروپیگنڈے کے خلاف “بنیان المرصوص” بن کر ڈٹ کر جواب دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر سیاسی جماعت کی قیادت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی اتحاد کا مظاہرہ کیا اور افواج کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ مسلح افواج وزیراعظم اور اُن کی کابینہ کی صلاحیتوں اور جرأت مندانہ فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، جنہوں نے نازک صورتحال میں درست قیادت فراہم کی اور ملک کو خطرے سے نکالا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کا جواب ایک ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں تینوں افواج نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وسائل کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ بھارت پر زمین، فضا، سمندر اور سائبر میدان میں مربوط انداز میں کاری ضربیں لگائی گئیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوج کے ایف ون اور ایف ٹو میزائل، جو طویل فاصلے تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور فضائیہ کے جدید اسلحے سے بھارت کے 26 عسکری اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ تنصیبات وہ تھیں جو پاکستان کے بے گناہ شہریوں پر حملوں کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں یا پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں کردار ادا کر رہی تھیں۔
ان ہوائی اور فضائی تنصیبات میں شامل مقامات یہ تھے:
سورت گڑھ، سرسا، بھٹنڈا، بوجھ، نالیا، آدم پور، برنالہ، ہلواڑہ، اونتی پورہ، سری نگر، جموں، ادھم پور، مامون، انبالہ اور پٹھان کوٹ، جہاں بھارتی ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا۔
نشانہ بننے والی دیگر فوجی تنصیبات میں نشہرہ میں موجود 10 بریگیڈ، اے جی ٹاپ اور 80 بریگیڈ کی کمانڈ تنصیبات شامل تھیں، جو معصوم خواتین اور بچوں پر فائرنگ میں ملوث تھیں۔
راجوڑی میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کی وہ یونٹس اور فیلڈ عناصر جو پاکستان میں پراکسی دہشت گردی کی معاونت کرتے تھے، ان کو بھی ختم کر دیا گیا۔
لائن آف کنٹرول پر ان تمام پوسٹوں کو مسلسل نشانے پر رکھا گیا جو آزاد کشمیر کے نہتے شہریوں پر فائرنگ کرتی تھیں، بالآخر ان پوسٹوں کو سفید جھنڈے لہرانے پر مجبور ہونا پڑا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستان کے مسلح ڈرونز نے بھارتی دارالحکومت دہلی، مقبوضہ کشمیر سے لے کر گجرات تک مسلسل پروازیں جاری رکھیں، تاکہ نہ صرف پاکستان کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جا سکے بلکہ یہ بھی واضح کیا جا سکے کہ موجودہ دور کی جنگ میں ڈرونز کتنے اہم ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ افواجِ پاکستان کے پاس کئی جدید ٹیکنالوجیز اور جنگی صلاحیتیں موجود ہیں، جنہیں اس کارروائی میں محدود سطح پر استعمال کیا گیا ہے، جبکہ بہت سی صلاحیتیں آئندہ کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں۔