اسرائیل کی جنگی کابینہ کے ایک اہم رکن نے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی حکومت سے استعفیٰ دے دیا ہے جس کے بعد غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی رہنما پر داخلی دباؤ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیل کے سابق جنرل اور وزیر دفاع بینی گانٹز نے غزہ کے لیے جنگ کے بعد کے منصوبے کو نتن یاہو کی جانب سے منظور کرانے میں ناکامی کے بعد ہنگامی طور پر ادارے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔
ان کے جانے سے حکومت کا تختہ الٹنے کی توقع نہیں ہے، جو مذہبی اور انتہائی قوم پرست جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، لیکن حماس کے خلاف جنگ کے آٹھ ماہ بعد نتن یاہو کے لیے یہ پہلا سیاسی دھچکا ہے۔
استعفے سے قبل میڈیا بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نتن یاہو ہمیں حقیقی فتح کی طرف بڑھنے سے روک رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھاری دل کے ساتھ حکومت چھوڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے چند منٹ کے اندر جواب دیتے ہوئے کہا کہ بینی، یہ لڑائی چھوڑنے کا وقت نہیں ہے، یہ فوج میں شامل ہونے کا وقت ہے۔
ہفتے کے روز اسرائیلی فوج نے غزہ سے چار قیدیوں کو بازیاب کرایا تھا۔
گانٹز کو نتن یاہو کی حکومت گرنے اور قبل از وقت انتخابات کی صورت میں اتحاد بنانے کے لیے پسندیدہ امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ان کی سینٹرسٹ نیشنل یونین پارٹی نے گذشتہ ہفتے اسرائیل کی پارلیمان کنیسٹ کو تحلیل کرنے اور قبل از وقت انتخابات کرانے کے لیے ایک بل پیش کیا تھا۔
اسرائیل کے سابق آرمی چیف نے بار بار اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تمام قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے اور اسے ترجیح بنانے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچے۔
نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے بعد سےاسرائیل مزید کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے اور غزہ میں اپنی شدید فوجی مہم جاری رکھے ہوئے ہے۔