پاکستان میں خاندان میں شادیوں کی زیادہ شرح اور محدود جینیاتی سروسز کی فراہمی جینیٹک ڈس آرڈر کی بڑی وجہ اور جینیٹک کانسلنگ کے لیے ایک اہم چیلنج بھی ہے۔
اس حوالے سے ماہر جینیات ڈاکٹر مصباح حنیف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 2ہزار میں سے ایک شخص جینیٹک ڈس آرڈر کا شکار ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں تربیت یافتہ افراد کی کمی، جینیٹک ٹیسٹنگ کی محدود دستیابی کانسلنگ میں اہم رکاوٹ ہیں۔
ڈا میڈیکل کالج میں پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر کے زیر اہتمام رول آف جینیٹک کانسلران اینٹی نیٹل کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس میں پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نازلی حسین، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ بٹ، ڈاکٹرز ، ہا ئوس آفیسرز سمیت طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر ماہرین صحت نے قبل از پیدائش (اینٹی نیٹل کلینکس) میں جینیاتی تشخیص کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے درست تشخیص، متاثرہ خاندانوں میں پری سمپٹومیٹک فرد کی شناخت، جینیاتی امراض کے خدشات کا شکار جوڑوں کو تولیدی آپشنز پیش کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے مختلف جینیٹک ٹیسٹس جیسا کہ ڈائیگنوسٹک، پری ڈکٹیو اور کیریئر ٹیسٹس ہوتے ہیں۔ جینیٹک کانسلنگ مختلف شعبہ جات ، پری نیٹل، پیڈیاٹرک، بالغان اور کینسر جینیٹک کانسلنگ میں ہوتا ہے۔
پری نیٹل جینیٹک کانسلنگ قبل از اور بعد از حمل کچھ اہم علامات کی بنیاد پر ہوتی ہے، جیسا کہ متعدد مِس کیرجز، موروثی بیماریاں، سابقہ ابنارمل پریگننسی، والدین کی زیادہ عمر کی صورت میں پریکنسیپشن کانسلنگ ہونی چاہیے، جبکہ ابنارمل پری نیٹل اسکریننگ نتائج کی صورت میں پوسٹ کنسیپشن کانسلنگ کی جانی چاہئے۔
اس کے علاوہ ماں کی عمر بھی بچے میں جینیاتی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے، ماہرین کے مطابق20 سے 29 برس کی ماں میں 1500 میں سے ایک، 30 برس سے زائد العمر ماں میں 800 میں سے ایک، 35 سے زائد العمر میں 270 میں سے ایک، 40 برس سے زائد عمر میں 100 میں سے ایک اور 45 برس سے زائد العمر میں 50 میں سے ایک کے بچے کو جینیاتی بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ جینیاتی کانسلنگ کرنے کے بعد فیصلے کا اختیار ان پر چھوڑ دینا چاہئے۔
جینیٹک ڈس آرڈر کے حوالے سے دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ہر 2000 میں سے ایک فرد میں جینیاتی بیماری ہوتی ہے جس کے متاثرہ خاندانوں پر نمایاں اثرات مرتب ہوتے ہیں۔