دوسرا کھلا خط

عمران خان کا آرمی چیف کو دوسرا کھلا خط ، کیا گلے شکوے اور مطالبات کئے گئے؟

انتخابی دھاندلی، من پسند ججز، 26ویں ترمیم اور پیکا ایکٹ جیسے اقدامات سے فوج اور عوام میں خلیج بڑھ رہی ہے، عمران خان کا دوسرا کھلا خط

یہ دوسرا کھلا خط عمران خان کے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ سے پوسٹ کیا گیا ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے ملک و قوم کی بہتری کی خاطر نیک نیتی سے آرمی چیف (آپ) کے نام کھلا خط لکھا، خط کا مقصد فوج اور عوام کے درمیان دن بدن بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کیا جاسکے مگر خط کا جواب انتہائی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری سے دیا گیا۔

انہوں نے لکھا کہ میں پاکستان کا سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے مقبول اور بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ ہوں، میں نے اپنی ساری زندگی عالمی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کرنے میں گزاری ہے، 1970 سے اب تک میری 55 سال کی پبلک لائف اور 30 سال کی کمائی سب کے سامنے ہے، میرا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان میں ہے۔

سابق وزیراعظم نے لکھا کہ مجھے صرف اور صرف اپنی فوج کے تاثر، عوام اور فوج کے درمیان بڑھتی خلیج کے ممکنہ مضمرات کی فکر ہے جس کی وجہ سے میں نے یہ خط لکھا، میں نے جن 6 نکات کی نشاندہی کی ہے ان پر اگر عوامی رائے لی جائے تو 90 فیصد عوام ان نکات کی حمایت کریں گے۔

عمران خان نے مزید لکھا کہ پہلے اڈیالہ جیل کے فرض شناس سپرنٹنڈنٹ اکرم کو اغوا کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وہ قانون کی پاس داری کرتا تھا اور جیل قوانین پر عمل درآمد کرتا تھا، اب بھی تمام عملے کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔

بنیادی انسانی حقوق پامال کرتے ہوئے مجھ پر دبا بڑھانے کے لیے مجھ پر ہر ظلم کیا گیا مجھے موت کی چکی میں رکھا گیا، 20 دن تک مکمل لاک اپ میں رکھا گیا جہاں سورج کی روشنی تک نہیں پہنچتی تھی۔

پانچ روز تک میرے سیل کی بجلی بند رکھی گئی اور میں مکمل اندھیرے میں رہا، میرا ورزش کرنے کا سامان اور ٹی وی تک لے لیا گیا اور مجھ تک اخبار بھی پہنچنے نہیں دیا گیا، جب چاہتے ہیں کتابیں تک روک لیتے ہیں، ان 20 دنوں کے علاوہ مجھے دوبارہ بھی 40 گھنٹے لاک اپ میں رکھا گیا۔

میرے بیٹوں سے پچھلے چھ ماہ میں صرف تین مرتبہ میری بات کروائی گئی، اس معاملے میں بھی عدالت کا حکم نہ مانتے ہوئے مجھے بچوں سے بات کرنے نہیں دی جاتی جو میرا بنیادی اور قانونی حق ہے۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میری جماعت کے افراد دور دراز علاقوں سے مجھ سے ملاقات کے لیے آتے ہیں مگر ان کو بھی عدالتی آرڈز کے باوجود ملاقات کی اجازت نہیں ملتی، پچھلے چھ ماہ میں گنتی کے چند افراد کو ہی مجھ سے ملوایا گیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود میری اہلیہ سے میری ملاقات نہیں کروائی جاتی، میری اہلیہ کو بھی قید تنہائی میں رکھا گیا۔گن پوائنٹ پر کروائی گئی چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا۔

کورٹ پیکنگ کا مقصد انسانی حقوق کی پامالیوں اور انتخابی فراڈ کی پردہ پوشی اور میرے خلاف مقدمات میں من پسند فیصلوں کے لیے پاکٹ ججز بھرتی کرنا ہے تاکہ عدلیہ میں کوئی شفاف فیصلے دینے والا نہ ہو، میرے سارے کیسز کے فیصلے دبا کے ذریعے دلوائے جا رہے ہیں، مجھیغیر قانونی طور پر 4 سزائیں دلوائی گئی ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ میرے خلاف فیصلہ دینے کے لیے جج صاحبان پر اتنا دبا ہوتا ہے کہ ایک جج کا بلڈ پریشر 5 مرتبہ ہائی ہوا اور اسے جیل اسپتال میں داخل کروانا پڑا، اس جج نے میرے وکیل کو بتایا کہ مجھے اور میری اہلیہ کو سزا دینے کے لیے “اوپر” سے شدید ترین دبا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں