پتنگ بازی اور قیمتی جانوں کا ضیاع

تحریر: اعجاز اچیمہ
پتنگ بازی کیخلاف حکومت پنجاب کی جانب سے سخت احکامات کے باوجود یہ خونی کھیل جاری ہے۔ اور ڈور پھرنے سے تقریبا” روزانہ کسی نہ کسی کے زخمی یا جانبحق ہونے کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کھیل کی روک تھام میں بے بس نظر آ تے ہیں۔ جس پر وزیراعلی’ مریم نواز نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس خونی کھیل کے خاتمے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں۔ اس خونی کھیل کی شدت کا زیادہ احساس اس وقت ہر کسی کو ہوا جب گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک بڑی دردناک ویڈیو سامنے آئی جس میں موٹر سائیکل پر چلتے ہوئے ایک نوجوان نیچے گرتا ہے اور ساتھ ہی اس کی گردن سے خون کا فوارہ نکلتا ہے اور پھر گرتے ہی وہ نوجوان اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔ اس نوجوان کی گردن کو کسی کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور نے کاٹ دیا تھا جس سے ایک گھر کا جوان بیٹا ایک ماں کا لخت جگر دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس ناگہانی موت نے ناصرف اس کے اہل خانہ کو بلکہ پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ پتنگ بازی کبھی ایک کھیل ہوا کرتا تھا اور بسنت کے نام پر اس کو بڑے اہتمام سے منایا جاتا تھا۔ لاہور شہر اس کھیل کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ جہاں فروری کے مہینے میں بسنت منانے کا حاص اہتمام کیا جاتا۔ دوسرے شہروں سے بھی لوگ اس تہوار کو منانے لاہور پہنچ جاتے۔ جہاں پتنگوں کے ساتھ دعوتیں بھی اڑائی جاتیں اور خوب ہلہ گلہ کیا جاتا۔ پتنگ بازی کے فروغ کے لیے ایسوسی ایشنیں بھی بن گئیں تھیں اور یہ شعبہ تقریبا” ایک صنعت کا روپ دھار گیا تھا۔ لیکن پھر اس کھیل میں خونی دھاگے کی انٹری ہوئی تو بے شمار نوجوان اور بچے موٹر سائیکل پر چلتے ہوئے اس قاتل ڈور کا شکار ہونے لگے جس کی وجہ سے 2007 میں ملک بھر میں بسنت کے منانے اور پتنگ بازی کرنے پر پابندی لگ گئی اور اس طرح صدیوں سے لاہور کے ساتھ منسلک یہ کلچرل تہوار دم توڑ گیا لیکن آج بھی ہر سال پابندی کے باوجود فروری اور مارچ کے مہینوں میں بسنت کا تہوار فیصل آباد ، قصور سمیت کئی چھوٹے بڑے شہروں میں منایا جاتا ہے اور گزشتہ روز کی سوشل میڈیا کی ویڈیو جس میں ایک نو جوان ڈور کے پھرنے سے دم توڑ گیا تھا وہ بھی فیصل آباد شہر کی ہی ہے۔ لاہور شہر میں تو انتظامیہ کی ٹھوس مہم نے پتنگ بازی پر کسی حد تک قابو پا لیا ہے۔ لیکن دیگر شہروں میں کبھی بھی پتنگ بازی ختم نہیں ہو سکی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتظامیہ اور حکومت کی یہ دوغلی پالیسی کیوں ہے کہ ایک خطرناک ڈکلئیر کئے گئے خونی کھیل کے حوالے سے چشم پوشی اختیار کی گئی ہے۔ پتنگ بازی شاید خود اس قدر خطرناک نہیں ہوگی جس قدر اس میں مخصوص قسم کی ڈور استعمال کرنے سے نقصان پہنچتا ہے تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ یہ خونی دھاگہ ملک میں آتا کیسے ہے اور اس کو مانجا لگانے کی اجازت کون دیتا ہے۔ اس سارے کھیل میں جہاں عوام کو اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اور گھروں میں والدین کو اپنے بچوں کی حرکات پر نظر رکھنا ضروری ہے تو وہیں پر حکومت اور شہری انتظامیہ کے زمہ داروں کو بھی سزائیں دینا لازمی ہے کیونکہ دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہمارے شہروں میں پھیلنے والی ہر غلط چیز کے پیچھے کہیں نہ کہیں سرکاری اہلکار ہی نظر آتے ہیں جو چند روپے رشوت وصول کرکے کسی بھی خونی اور خطرناک کھیل کا حصہ بننے کو تیار ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ میڈیا میں خبروں کے باوجود اب کسی بھی سرکار کے کارندے پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہےاور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کاروائی ہوتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کہ آتش بازی کا سامان اور مخصوص قسم کی قاتل ڈور کہاں فروخت ہوتی ہے لیکن اس پر کوئی کنٹرول کرنا نہیں چاہتا جس کی وجہ سے چند لوگوں کی نااہلی اور بد دیانتی کی وجہ سے ہم ایک کے بعد ایک حادثے کا شکار ہو کر مختلف تہواروں یا ایونٹس پر ہی پابندی لگوا بیٹھتے ہیں اور بدقسمتی ہے کہ ایک عام آدمی سے تفریح کے مواقع تو چھن جاتے ہیں لیکن وہی قانون شکن مٹھیاں گرم کرکے اپنا کام چلاتے رہتے ہیں۔ یہی حال ہر محکمہ کے اندر دیکھا جاسکتا ہے۔ چند سال ہوئے کہ لاہور کی بڑی شاہرہ کے کنارے ایک کمرشل عمارت کی تعمیر ہورہی تھی اور اس وقت کی شہری انتظامیہ نے شاہراہوں کے کنارے کسی بھی کمرشل عمارت کی تعمیر پر پابندی لگا رکھی تھی لیکن چند کارندوں کی جیب گرم کی گئی تو انہوں نے خود طریقہ بتایا کہ آپ خاموشی کے ساتھ فرنٹ دیوار بناکر اندر تعمیر شروع کردیں اور کوشش یہ کریں کہ جلدی سے جلدی چھت ڈال دیں اور پھر وہ عمارت بڑی تیزی کے ساتھ مکمل ہوئی اور آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح سے شہر کے ہر فٹ پاتھ اور سڑک کناروں پر ٹھیلوں اور ریڑھی بانوں نے قبضہ جما رکھا ہے جس سے خواتین کا ان راستوں سے پیدل چلنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن یہ لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ شہری کارپوریشن کے عملہ کو ان کا حصہ دیتے ہیں اور بڑی بدمعاشی کے ساتھ پبلک مقامات پر قبضہ جمائے بیٹھے رہتے ہیں اور جب کوئی ان کے خلاف شکایت کرتا ہے تو یہی کارندے درخواست کی کاپی اور شکایت کنندہ کا موبائل نمبر ان قبضہ مافیا کو فراہم کرکے ان سے کھلے عام کہتے ہیں کہ آپ مل کر اس شکایت کنندہ کی طبیعت صاف کردیں جبکہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں اور ہماری طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہو گی۔ ایسی صورتحال میں کون مافیا کیخلاف کھڑا ہو گا۔ یقین جانئے یہ سارے ادارے جس قانون کی عملداری کے لئے بنائے گئے تھے اور اسی قانون کو سر عام رسوا کرتے ہیں اور ان کی کہیں سے بھی پکڑ نہیں ہوتی ہے اور کسی حادثہ کی صورت میں چند دن کہرام مچتا ہے اور وزیر اعلیٰ یا کوئی وزیر متاثرہ خاندان کے پاس جا کر فوٹو سیشن کرواتا ہے اور سوشل میڈیا پر ڈال کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتا ہے اور پھر سب ویسے ہی چلتا ہے جیسے پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ ابھی وزیر اعلیٰ مریم نواز فیصل آباد تشریف لے گئیں اور بڑے لمبے اعلانات اور دعوے کئے لیکن عملی طور پر چند دن بعد سب بھول جائیں گے اور ایک بار پھر بے حسی کا نظام وقتی فائدے اور چند روپوں کے عوض اپنے ضمیر بیچ کر کسی اور آصف کی جان لے لےگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ واقعاتی ردعمل اور ایڈہاک احکامات نے ہی اس نظام کو تباہی سے دوچار کیا ہے جبکہ ضرورت دیرپا پالیسیاں بنانے کی ہے اور پھر نظر انداز کرنے والے سرکاری کارندوں اور افسران کے خلاف کاروائی کرنے کی ہے کیونکہ عملدرآمد نہ کروانے والے ہی اصل مجرم ہوتے ہیں جن کی سست روی سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں اور المیے جنم لیتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں