واشنگٹن۔امریکی جریدے نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایران نے مشرق وسطیٰ میں تعینات امریکی فوجی تنصیبات پر ممکنہ حملوں کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
رپورٹ میں امریکی خفیہ اداروں کی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر واشنگٹن، ایران اور اسرائیل کے مابین جاری تنازع میں عملی مداخلت کرتا ہے، تو تہران امریکی فوجی مراکز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق ایرانی حملوں کا آغاز ممکنہ طور پر عراق کی سرزمین سے ہو سکتا ہے، جبکہ آبنائے ہرمز میں بارودی سرنگیں بچھا کر سمندری آمد و رفت میں رکاوٹ ڈالنے کی حکمت عملی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔
امریکی حکام نے اس ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر یورپی خطے میں لگ بھگ 36 ایندھن بھرنے والے طیارے تعینات کر دیے ہیں، جو نہ صرف امریکی فضائیہ کے جنگی طیاروں کو سپورٹ فراہم کریں گے بلکہ ایران کے ایٹمی مراکز پر کسی بھی ممکنہ فضائی حملے میں بمبار طیاروں کی رسائی بھی بڑھا سکیں گے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی حکام اس وقت ایک ممکنہ وسیع تر جنگ کے پھیلاؤ کے اندیشے کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اسرائیل کی جانب سے واشنگٹن پر ایران کے خلاف براہِ راست فوجی کارروائی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر امریکا ایرانی نیوکلیئر سہولیات، خصوصاً فردو کے زیرزمین ری ایکٹر کو نشانہ بناتا ہے، تو ایران کے حامی گروہ جیسے یمن میں حوثی ملیشیا، بحیرہ احمر میں امریکی یا اس کے اتحادی بحری بیڑوں پر حملے کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واشنگٹن ایک ایسے آپشن پر بھی غور کر رہا ہے جس میں 30 ہزار پاؤنڈ وزنی “بنکر بسٹر بم” استعمال کیا جا سکتا ہے، جو زیرِ زمین بنائے گئے ری ایکٹرز کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دوسری جانب، ایران نے حالیہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خبردار کیا ہے کہ اگر کوئی ملک اسرائیلی حملوں میں شریک ہوا، تو اسے اس جنگ کے سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا کیونکہ وہ قانونی طور پر جنگ کا فریق تصور کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے، امیر سعید ایراوانی، نے بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکا پر براہ راست الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “اگر امریکا اسرائیل کو اسلحہ، انٹیلی جنس اور سیاسی پشت پناہی نہ دیتا، تو اسرائیل کبھی ایران پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کرتا۔” انہوں نے اس کارروائی کی مکمل ذمہ داری امریکا پر عائد کی۔