اسرائیل دو ہفتے میں غزہ جنگ ختم کرنے پر تیار؛ حماس کی جگہ دوسری حکومت کے قیام پر اتفاق

واشنگٹن۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت پر اتفاق کیا گیا ہے۔

اسرائیلی روزنامہ اسرائیل ہیوم کی رپورٹ کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے نہ صرف غزہ میں جاری تصادم کے فوری خاتمے پر آمادگی ظاہر کی بلکہ ابراہیم معاہدوں کے دائرہ کار کو مزید وسیع کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔

اخبار نے ایک قریبی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس بات چیت میں طے پایا کہ غزہ کی لڑائی آئندہ دو ہفتوں میں ختم کر دی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق، اس منصوبے کے تحت متحدہ عرب امارات، مصر اور چند دیگر عرب ممالک مل کر غزہ میں ایک عبوری حکومت قائم کریں گے، جو حماس کی جگہ لے گی۔ حماس کی اعلیٰ قیادت کو ملک بدر کر دیا جائے گا، جبکہ تمام مغوی افراد کو رہا کر دیا جائے گا۔

تاہم، کئی عرب ریاستوں نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیر نو میں صرف اسی صورت حصہ لیں گی جب فلسطینی اتھارٹی کو اس عمل میں شامل کیا جائے گا، کیونکہ وہ اسے مستقبل میں دو ریاستی حل کی بنیاد سمجھتی ہیں۔ لیکن وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی ممکنہ کردار کو سختی سے رد کر چکے ہیں۔

دوسری جانب، حماس کی قیادت نے بھی جلا وطنی کے کسی بھی منصوبے کو مسلسل مسترد کیا ہے۔

یہ اہم ٹیلی فونک گفتگو پیر کی شب ہوئی، جس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیل کے وزیر برائے اسٹریٹجک امور رون ڈرمر بھی شریک تھے۔

مزید یہ کہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان فلسطینی شہریوں کے لیے، جو غزہ سے نکلنا چاہیں، چند نامعلوم ممالک میں منتقلی کا بندوبست کیا جائے گا۔

اسرائیلی اخبار کے مطابق، اس منصوبے میں یہ امکان بھی شامل ہے کہ سعودی عرب اور شام مستقبل قریب میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے، جس کے بعد دیگر مسلم و عرب ممالک بھی ان کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں۔

اس سب کے بدلے میں، اسرائیل دو ریاستی حل کی مشروط حمایت کرے گا، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ، مغربی کنارے کے بعض علاقوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرنے پر غور کرے گا۔

یہ تمام معاملات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب منگل کے روز ایران کی جانب سے مبینہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد صدر ٹرمپ نے غصے کا اظہار کیا تھا اور نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمات ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

یہ مجوزہ منصوبہ مشرق وسطیٰ میں ایک بڑے جغرافیائی و سیاسی تغیر کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، تاہم موجودہ زمینی حقائق اور مختلف فریقین کے باہمی اختلافات اس راہ میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں