اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وضاحت کی ہے کہ امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور چیف وہپ کو باقاعدہ دعوت نامہ بھیجا گیا تھا، تاہم وہ ملاقات میں شریک نہ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ عالمی طاقتوں سے مدد کی توقع رکھتے ہیں، انہیں خود بھی اُن سے بات چیت میں سنجیدگی دکھانی چاہیے۔ اسپیکر کے مطابق، اس دعوت کے حوالے سے تمام ضروری شواہد ان کے پاس موجود ہیں۔
ایاز صادق نے بتایا کہ امریکی کانگریس کے تینوں ارکان نے ملاقات کے دوران واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کے حق میں نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن نے اس نشست میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کا نام تک نہیں لیا۔
مذاکرات پر آمادگی اور اپوزیشن پر تنقید
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر حکومت یا اپوزیشن میں سے کسی جانب سے رابطہ کیا گیا تو وہ ان کی بات متعلقہ فورم تک ضرور پہنچائیں گے۔
ایوان کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ اسمبلی کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو پھر قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینز کی حیثیت پر بھی سوال اٹھتا ہے۔
انہوں نے شکایت کی کہ ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے بار بار کورم کی نشاندہی سے قانون سازی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کے طرزِ عمل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وہ عوامی مسائل پر بات ہی نہیں کرنے دیتے۔
ایاز صادق نے کہا کہ وہ ایک سالہ پارلیمانی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور یاد دلایا کہ کورم کی تکمیل حکومت کی ذمہ داری ہے۔
محمود اچکزئی کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر انہیں حوالدار کہا گیا ہے تو یہ واضح کیا جائے کہ کس حیثیت میں؟ “میرے لیے وہ ایک عام فرد کے سوا کچھ نہیں،” ایاز صادق نے کہا۔
ایک صحافی کے سوال پر کہ عمر ایوب نے الزام لگایا ہے کہ جنید اکبر کی ویڈیو آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افراد نے ڈیلیٹ کی، اسپیکر نے کہا کہ انہیں اس معاملے کی کوئی معلومات نہیں، اور نہ ہی ان اداروں سے ان کا کوئی رابطہ ہے۔ اگر عمر ایوب نے یہ بات کی ہے تو انہی سے وضاحت طلب کی جائے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا دیگر صوبائی و قومی اسمبلیوں کے اسپیکرز سے مسلسل رابطہ ہے اور مختلف امور پر مشترکہ پیش رفت جاری ہے۔ ایاز صادق نے مزید کہا کہ قومی اسمبلی کے 10 اراکین سے متعلق شکایات کی مکمل جانچ کی گئی، لیکن کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔
مذاکرات کی اہمیت اور پارلیمانی رویّہ
انہوں نے زور دیا کہ وہ نہ صرف بطور اسپیکر بلکہ ایک رکنِ اسمبلی کے طور پر بھی مکالمے کے حامی ہیں۔ ان کے مطابق بند کمرے کی ملاقاتیں مفید ہو سکتی ہیں، لیکن دیرپا حل صرف کھلے دل سے مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
پیپلز پارٹی سے متعلق گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ گزشتہ پیر کو نہری نظام کے معاملے پر بات چیت کی درخواست پر 30 اراکین نے اظہار خیال کیا، تاہم اپوزیشن نے کوئی رائے نہیں دی۔ جب اگلے روز قرارداد پر بات ہونی تھی تو بحث مکمل ہونے کی وجہ سے وقت نہ مل سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈپٹی وزیراعظم کا مؤقف واضح تھا اور حکومت کی طرف سے فیصلہ ہوا کہ اجلاس ختم کیا جائے۔